عوام ستم گروں سے پیار کرتے ہیں

اسلام آباد میں برسوں گزر گئے۔ سیاست پر رپورٹنگ بھی کی اور حکمرانوں کو بڑے قریب سے دیکھا اور سنا۔ ان سیاستدانوں کی چھوٹی بڑی حرکتیں بھی دیکھیں‘ان کے تبصرے سنے‘ ان کی دانائی بھری باتیں سنیں لیکن یقین کریں میجر عامر سے بہتر سیاست اور سیاستدانوں کو شایدہی کوئی سمجھتا ہو۔

کسی ایشو پر بات ہورہی تھی تو میں نے کہا: آپ جیسے سیاسی طور پر سمجھدار اور سوجھ بوجھ رکھنے والے بندے کو یوں گھر بٹھا کر ضائع نہیں کرنا چاہئے تھا‘ آپ میں بہت خوبیاں ہیں‘آپ ان خوبیوں کی بدولت کسی بھی حکمران اور ملک وقوم کیلئے بڑے کارآمد ثابت ہوسکتے تھے۔میجر صاحب ہنس کر کہنے لگے: کئی دفعہ مجھے آفرز کی گئیں‘ عہدے پیش کیے گئے لیکن میں نے شکریہ ادا کر کے انکار کر دیا۔ مجھے کسی عہدے کی خواہش نہیں رہی۔میں نے کہا: کیا وجہ ہے‘لوگ تو عہدوں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں‘ یہاں آپ کو گھر بیٹھے آفرز ہوتی ہیں۔سنجیدہ ہوکر بولے : ایمانداری سے ایک بات بتائوں‘ جہاں جہاں سے آفرز آتی ہیں یا ماضی میں آئی ہیں ان سب کو بڑے قریب سے دیکھا ہے‘ جانچا ہے‘ سمجھا ہے۔ اب اس عمر میں پہنچ کر کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جس کے ماتحت لگنے میں مجھے فخر محسوس ہو۔ کوئی ایسا ہو جس کے نیچے کام کروں تو اطمینان اور خوشی محسوس ہو۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور سکینڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔مجھے سابق وفاقی سیکرٹری انور محمود یاد آئے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ انہوں نے چار دہائیوں تک سرکار کے بڑے بڑے عہدوں پر کام کیا‘ کئی وزرائے اعظم‘ صدر اور ضیا الحق سے پرویز مشرف تک کا اقتدار قریب سے دیکھا۔ انفارمیشن منسٹری کے ہر بڑے چھوٹے عہدے پر نوکری کی‘وزیراعظم کے پریس سیکرٹری تک رہے‘ کس سے آپ متاثر ہوئے؟یہ سوال میں نے ان سے آج سے تین سال پہلے کیا تھا جب انہیں ریٹائرڈ ہوئے چند برس گزر چکے تھے۔انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہا کہ جب 1985ء میں جونیجو وزیراعظم بنے تو کچھ عرصہ بعد مجھے ان کا پریس سیکرٹری لگایا گیا تھا۔ ان کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس میں کام کیا۔ وہ سب سے بہتر وزیراعظم تھے۔آپ اندازہ کریں کہ تقریباً 37 سال کی سروس کے بعد آپ کو صرف ایک بندہ نظر آئے جو آپ کے خیال میں بہترین وزیراعظم تھا۔ باقی کے برسوں بارے وہ چپ رہے۔وہی بات اب میجر عامر کہہ رہے تھے کہ جن جن سے ملا اور انہوں نے آفرز کیں‘ کسی کے نیچے کام کرنے کو دل نہ کیا۔ وجہ یہ نہ تھی کہ وہ خود کو توپ چیز سمجھتے ہیں۔ نواز شریف دور میں انہوں نے ایف آئی اے میں اعلیٰ پوزیشن پر کام کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب لوگ ان کی ریٹنگز میں نیچے چلے گئے۔

آپ پوچھیں گے اتنی لمبی تمہید کا کیا مقصد۔اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے ملک کی قیادت کا لیول اتنا کمزور ہے کہ ایک اعلیٰ وفاقی سیکرٹری کو اپنی برسوں کی نوکری میں صرف ایک وزیراعظم ملا جس سے وہ متاثر ہوا۔ کتنا بڑا قحط الرجال ہے۔ دوسرے ریٹائرڈ میجر کو کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جس کے نیچے کام کر کے اسے فخر محسوس ہو۔اگر آپ کو کوئی شک ہے تو آپ موجودہ لاٹ میں سے کوئی نام بتا دیں جس نے کچھ کر کے دکھایا ہو۔ کسی میں احساسِ ہمدردی ہو۔ ہوسکتا ہے بہت سے لوگ عمران خان کا نام لیں۔ عمران خان کو ایک ایڈوانٹج ہے کہ وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے اور وہ بھی صرف ساڑھے تین سال کیلئے۔ میری خواہش تھی کہ وہ پانچ سال پورے کرتے تو قوم ان کو پورا جج کرسکتی۔ اب وہ کہہ سکتے ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں کہ ان کے دور میں ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں حالانکہ اس سال فروری تک ان کے وزیر ٹی وی ٹاک شوز میں جانے کو تیار نہ تھے کہ عوام کا سامنا کیسے کریں۔ لیکن وہی بات کہ ان کی جگہ جو لوگ حکمران بنے ان کے بارے میں عوام کی رائے اتنی زیادہ خراب ہے کہ لوگ عمران خان کی خامیاں بھول گئے۔

عمران خان کے توشہ خانہ سکینڈل سے کچھ لوگوں کے دل ٹوٹے۔ ان کے فین کلب نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر عمران خان نے توشہ خانہ سے تحائف بیچ کر تیس کروڑ کما لیے تھے تو یہ کام زرداری اور نواز شریف ان سے پہلے کرچکے تھے۔ خود عمران خان نے یہی بات کی لیکن سوال وہی ہے کہ اگر آپ نے اپنا موازنہ زرداری اور شریف سے کرنا ہے کہ اگر میں نے تحائف میں ڈنڈی ماری ہے تو شریف اور زرداری بھی تو یہی کر چکے ہیں تو پھر وہ فرق کہاں گیا جو زرداری‘ شریفوں اور عمران خان میں ہونا تھا؟ پھر آپ سب ایک ہوئے۔ عمران خان کی چوریاں اس لیے چھوٹی لگتی ہیں کیونکہ وہ پہلی دفعہ کررہے تھے۔ زرداری اور شریف تو تیس برسوں سے کرتے آئے ہیں۔ عمران خان بھی جب نواز شریف کی طرح تیسری دفعہ وزیراعظم بنیں گے تو شاید پھر موازنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس وقت خان صاحب بالکل اس طرح کہا کریں گے جیسے کبھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہم کرپٹ ہیں تو آپ بھی تو ہیں۔پھر چھوٹے بڑے کی بات نہیں ہوگی۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں لوگ ڈوب گئے ہیں۔سندھ کے بارے بتایا جارہا ہے اس کی حالت بہت بُری ہے۔ بلوچستان ڈیڑھ ماہ سے بارشوں اور سیلاب کا شکار ہے اور وہاں الگ انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ کوہستان میں جس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے اس نے سب کو دہلا دیا ہے کہ پانچ دوست گھنٹوں سیلاب کے پانی میں پھنسے رہے۔ ہیلی کاپٹر کی درخواست کی گئی لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ سب پانی میں بہہ گئے۔ اندازہ کریں ان پر کیا گزری ہوگی۔کیا اسے اللہ کی طرف سے ناراضگی سمجھنا چاہئے یا ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی نااہلی؟ عالمی طور پر دو تین ماہ پہلے سے وارننگ آرہی تھی کہ پاکستان میں بڑا فلڈ آئے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔ لیکن مجال ہے وزیراعظم شہباز شریف یا ان کے پلاننگ اور این ڈی ایم اے کے افسران کے کان پر جوں رینگی ہو کہ ہم نے ابھی سے کیسے منصوبہ بندی کر کے کم از کم انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہونے دیا۔ ہم نے ہر ضلع تحصیل کی سطح پر ٹیمیں تشکیل دے کر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ اور سنیں‘ خان صاحب سے پوچھا گیا کہ وہ عوام سے چندے کی اپیل کریں گے کہ لوگ بھوکے مررہے ہیں؟ پتہ چلا کہ شوکت خانم‘ نمل اور اب بشریٰ بیگم کے ٹرسٹ کی ان پر زیادہ ذمہ داری ہے اور وہ انہی کیلئے چندہ مانگیں گے۔ وجہ بتائی کہ ابھی وہ کسی پر بھروسا نہیں کرسکتے کہ یہ پیسہ کہاں اور کیسے استعمال ہوگا۔ اندازہ کریں عمران خان اپنے دو وزرائے اعلیٰ پر اعتبار کو تیار نہیں کہ قوم سے اپیل کریں کہ وہ ان کے ریلیف فنڈ میں چندہ دیں۔

دوسری طرف یہ ارب پتی حکمران زرداری ہو‘ شریف ہوں یا قریشی گیلانی‘ کسی نے اب تک ایک روپیہ امداد کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سب اب بزنس مین ہیں۔ ان کی شوگر ملیں ہیں‘ کہیں سے کوئی ایک ٹرک نہیں نکلا جو ان مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچتا۔ انہی سیاستدانوں کی شوگر ملوں کو تیس ارب روپے عوام کی جیب سے سبسڈی دی گئی تھی۔ آج عوام ڈوب رہے ہیں تو چاہیے تھا کہ یہ سب شوگر ملیں وہی تیس ارب نہ سہی دس ارب کا فنڈ قائم کر کے ان لوگوں کی مدد کرتیں۔یہ سب مانگنے والے ہاتھ ہیں‘ دینے والے نہیں۔ جتنا کمایا ہے وہ انہیں کم لگتا ہے۔ لیکن کیا کریں عوام بھی انہی عمران خان‘ شریف خاندان اور زرداری پر مرتے ہیں کیونکہ عوام کو بھی اپنے ستم گروں سے پیار ہے۔ عوام سیلاب میں مررہے ہیں‘ ڈوب رہے ہیں لیکن ان لیڈروں کی محبت کم نہیں ہورہی۔ وہ حکمران اور لیڈرز جن کے بارے میجر عامر کہتے ہیں کہ کئی اعلیٰ عہدوں کی پیشکشیں ہوئیں لیکن کسی کے نیچے ان کا ماتحت لگنے کا دل نہیں کیا۔