سیاستدانوں کی سیاسی پنجاب پولیس

موجودہ سیاسی صورتحال میں پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے پولیس کو اپنا سیاسی ونگ سمجھ رکھا ہے،اور ضرورت پڑنے پر اسکا استعمال بھی کررہے ہیں،اسلام آباد کی پولیس ہو یا پنجاب کی پولیس،پولیس کا قیام عمل میں اسلیے لایا گیا تھا کہ پاکستان کے باشندوں کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنائے جاسکی،لااینڈ آرڈر کی صورتحال کو درست کیا جاسکے،مگر جن مقاصد کے لیے پولیس کو بنایا گیا وہ مقاصد کبھی حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی،ہاں البتہ جب شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے تو افسران کو جرائم بڑھنے اور پتنگ بازی ہونے پر پریشانی رہتی تھی مگر اب یہ پریشانی کافی حد تک ختم ہوچکی ہے،کیونکہ سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی جرائم بڑھنے پر پولیس افسران سے بہت کم بازپرس کرتے تھے اور اب بھی افسران سے کم ہی جرائم بڑھنے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے،پولیس کا استعمال اب صرف اہم ایونٹس یا سیاست میں کیا جارہا ہے،اہم ایونٹس سے مطلب کسی سیاستدان کی پیشی ہو تو پولیس کی فوج لگا دی جاتی ہے،کسی سیاست دان نے کسی تقریب میں جانا ہو تو پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی جاتی ہے،کرکٹ میچز ہوں تو پولیس کی بھاری نفری سکیورٹی ڈیوٹی پر لگا دی جاتی ہے،اور عموما میچ شام کو شروع ہونا ہوتا ہے مگر پولیس کو صبح ہی تعینات کردیا جاتا ہے اور جب میچ شروع ہوتا ہے تو پھر افسران پولیس کو مکمل تھکانے کے بعد ان سے سکیورٹی ڈیوٹی لیتے ہیں،اب تو کرائم میٹنگز بھی بہت کم ہوتی ہیں،کیونکہ جب فوکس ہی سارا مختلف ڈیوٹیوں پر ہوگا تو پھر پولیس سے جرائم بڑھنے کے بعد ان سے باز پرس کرنا بھی ان سے زیادتی ہوگی،اب ویسے بھی سابق وزیر اعظم عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کر کے ہیں،بس تاریخ دینا باقی ہے،مگر اس اعلان کے بعد لاہور سمیت پنجاب بھر کی پولیس لانگ مارچ کو سکیورٹی دینے پر لگا دی جائے گی اور اگر پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت نہ ہوتی تو پھر اسی پولیس کو کارکنوں اور رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ پر لگا دیا جانا تھا،مگر جرائم کے خاتمے کے لیے پولیس کا استعمال کم ہی ہونا تھا،نون لیگ پولیس کو پی ٹی آئی اے کے خلاف استعمال کرتی رہی اور پی ٹی آئی نون لیگ کے خلاف،مجھے خدشہ ہے کہ کہیں پنجاب پولیس کے ساتھ لگے نام (پنجاب پولیس) سے پنجاب ختم کرکے( سیاسی پولیس) نارکھ دیا جائے،شہر میں جرائم بڑھنے کے بارے میں وزیر اعلی سمیت تمام وزراء اور افسران بھی باخبر ہیں،جرائم کی سرکوبی میں اگر پولیس کومکمل طور پر استعمال کرنے کی ٹھان لی جائے اور پولیس کو سیاست سے دور کردیا جائے تو امید کیا یقین ہے کہ جرائم کم ہوجائیں گے،وفاق اور پنجاب کی جنگ بھی چل رہی ہے،سابق وزیر اعظم عمران خان آئی جی پنجاب فیصل شاہکار سے حساب مانگے رہے ہیں کہ کس طرح ایف آئی اے نے گوجرانولہ میں ایلیٹ فورس کا استعمال کیا،یہ وہی ایلیٹ فورس ہے جو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی تھی،مگر اس فورس کے نام کا مقصد اب سمجھ میں آگیا ہے،ایلیٹ فورس یعنی ایلیٹ لوگوں کی فورس،میری ہمیشہ سے ایک خواہش رہی کہ کاش میں کسی افسران کا بیان،دیکھ سن یا پڑھ سکوں کہ فلاں ایس ایچ او نے ایک حکومتی شخصیت کے بھائی،بیٹے یارشتہ دار کے خلاف میرٹ پر کارروائی کی ہے،اسکو شاباش دی جاتی ہے،کیش انعام دیا جاتا ہے یا پھر اسکو سرٹفکیٹ دیا جاتا ہے،مگر دیکھو یہ میرا پاکستان ہے،یہ تیرا پاکستان ہے یہ اسکا پاکستان ہے جو طاقتور ہے،اسکا اپنا قانون ہے،آسان الفاظ جسکی لاٹھی اسکی بھینس، یہ میرا خواب ہے اور امید ہے کہ جب تک میری زندگی ہے یہ صرف خواب ہی رہے گا کہ کسی ایس ایچ او یا اہلکار،ایس پی یا ڈی ایس پی کو شاباش صرف میرٹ پر کسی طاقتور کے خلاف کارروائی کرنے پر ملے گی،ایک وقت اسلام آباد میں یہ بھی آیا کہ پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس آمنے سامنے آگئی،ہوسکتا کہ اگر اس وقت کوئی طاقتور صورتحال کو کنٹرول نا کرتا تو پولیس ہی پولیس کی دشمن بن جاتی،مگر اب اسلام آباد پولیس بھی تیار ہے اور پنجاب پولیس کو بھی تیار کیا جارہا ہے،اسلام آباد پولیس کو قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے اور پنجاب پولیس کو سکیورٹی فراہم کرنے کے کیے،آئی جی پنجاب فیصل شاہکار اور آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کی کارکردگی کی جائزہ لینے کے لیے اب اس سے بہتر موقع کیا ہوگا،ناچاہتے ہوئے بھی پولیس افسران اور اہلکار ڈیوٹی کے نام پر استعمال ہونگے،ویسے بھی آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کو اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے نوٹس مل چکا ہے،پتہ نہیں انکو یہ نوٹس اب کیوں ملا ؟سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بھی سیاستدانوں نے ہی فٹ بال بنا دیا ہے،کچھ کھلاڑی وفاق میں اور کچھ کھلاڑی پنجاب میں موجود ہیں،مگر فٹ بال سے صرف گول ہی کیا جاتا ہے،فٹ بال کی جیت نہیں ہوتی جیت صرف ٹیم کی ہوتی ہے،اب دیکھتے ہیں وفاق یا پنجاب کی جیت ہوتی ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو جپھی جرائم میں کمی پر ڈالتے،یہ سیاسی جپھی ہے اور پولیس افسران بھی اس سیاسی جھپی کو اچھی طرح جانتے ہیں،سیاستدانوں کو جو افسر پسند نہ ہو اسکو او ایس ڈی یا پھر اسکی خدمات دوسرے صوبوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر افسر کی ضرورت ہو تو روٹیشن پالیسی کی بھی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں،پچیس مئی کے واقعے پر پولیس ہی استعمال ہوئی اور پولیس ہی نشانہ بنی،پچس مئی کو کھلاڑی اور تھے اور اب کھلاڑی اور،پتہ نہیں کب سیاستدان اپنے ذاتی جھگڑوں،انا،زاتی پسند اور نا پسند سے نکل کر پاکستان اور پاکستان کی عوام کو سوچیں گے،وہی کیپٹن سہیل چوہدری جنکو پی ٹی آئی نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگایا اور خود ہی تبدیل کیا وہی کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چوہدری کو نون لیگ نے دوبارہ اقتدار میں آکر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگایا اور پھر تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد انکو تبدیل کردیا گیا،تحریک انصاف کے دورحکومت میں پولیس افسران کے تبادلوں کی ایک لمبی،انتہائی لمبی،طویل اور طویل ترین فہرست بن چکی ہے،مگر پولیس کا نظام جوں کا توں ہی رہے گا جب تک پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جاتا،اگر غلام محمود ڈوگر بہترین افسر تھے تو پی ٹی آئی حکومت نے انکو خود سی سی پی او لاہور لگانے کے بعد تبدیل کیوں کیا تھا اور اگر وہ بہترین افسر نہیں تھے تو پھر انکو دوبارہ سی سی پی او لاہور کیوں لگایا گیا،غلام محمود ڈوگر کی سروس بھی تھوڑی رہ گئی ہے،وہ خود بھی سوچتے ہونگے کے نوکری کے اختتام پر ایسا کیوں ہوا،ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور اطہر اسماعیل امجد ایک اچھے افسر ہیں اگر وہ سیاست کی نظر نہ ہوئے تو کچھ نہیں بہت بہترین کام کروائیں گے،باقی بچی سی ٹی او لاہور کی سیٹ ویسے تو اس سیٹ میں بھی کئی بار سیاسی مداخلت کی جاچکی ہے مگر منتظر مہدی نے کچھ معاملات پرمکمل میرٹ کیا جس وجہ سے انکو ہٹانے کی کوشش کرنے والوں کو کوئی جواز نہ مل سکا اور وہ خاموش ہوگئے،ڈی آئی جی آپریشنز لاہور افضال کوثر نے اپنی لاہور کی اننگز تو اچھی کھیلنی شروع کی ہے اور جرائم پر بھی باز پرس کررہے ہیں،انکا سب سے بہترین عمل جو مجھے سب سے زیادہ پسند آیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے وائرلیس کے ذریعے پیغام دیا کہ جو اپنی مرضی سے جس مرضی جگہ پر تبادلہ کرانا چاہتے ہیں وہ پیش ہوجائیں،اور یہ اعلان سننے کے بعد 600 سے زائد اہلکار پیش بھی ہوئے عمل تو اچھا کیا مگر اب یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اپنے اعلان پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے عملدرآمد بھی کیا یا نہیں،مگر آغاز تو اچھا ہے،مگر اب میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر،ڈی آئی جی آپریشنز افضال احمد کوثر اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اطہر اسماعیل امجد سے امید کرتا ہوں کہ وہ میرٹ پر عملدرآمد کرنے اور کروانے والے افسران اور اہلکاروں کا مکمل ساتھ دیں،تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو سکے،جب ایک بار کسی طاقتور کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے گا تو مجھے یقین ہے کہ پولیس افسران لمبی اننگز کھیلیں گے اور طاقتور آؤٹ ہوتے چلے جائیں گے،مگر اسکے لیے افسر کو سب سے پہلے اپنا حوصلہ بڑھانا ہوگا جسکے بعد فورس کا حوصلہ خود بہ خود بلند ہوجائےگا،ویسے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کوشش تو کررہے ہیں کہ انکو ایک شاہکار کے طور پر یاد رکھا جائے،دوسرے ممالک ترقی کرتے جارہے ہیں اور پاکستان اور اسکی عوام دن بدن نیچے سے نیچے جاتی جارہی ہے،پاکستان کو صرف زندہ باد کا نام ہی نہ دیں اسکو زندہ رکھنے کے لیے اسکی زندگی بڑھائیں.