معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ٹریفک پولیس کی’’غریب پروری!‘‘
ٹریفک پولیس والوں کی غریب پروری سے تنگ آ کر میں نے ریڑھا چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یقیناً آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ٹریفک کی بتی سرخ ہونے پر، سبز بتی والے جب ایک سیلاب کی صورت میں چوک کراس کرنے لگتے ہیں، کوئی ریڑھا سوار نوکیلی چونچ والا سریا لادے فضا میں چھانٹا بلند کئے مخالف سمت سے نمو دار ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر لوگوں کی اور کاروں ، اسکوٹروں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس شہنشاہ کی سواری پورے کروفر اور سہولت سے چوک سے گزر جاتی ہے۔ آپ جھنجھلاہٹ کے عالم میں ٹریفک پولیس سے شکایت کریں کہ اس نے سارے ٹریفک کو درہم اور لوگوں کو برہم کردیا ہے تو اس کے جواب میں آپ کو خندہ استہزاء کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح ویگن والے جو سلوک ٹریفک سے کرتے ہیں اور ٹریفک پولیس کے سامنے کرتے ہیں وہ دیکھنے کی چیز ہے۔ ان لمحوں میں پولیس والے ہفتہ خوش اخلاقی منانے لگتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ مناظر آپ نے ہائی وے پر بھی دیکھے ہوں گےبسیں جس طرح آپے سے باہر ہوئی ہوتی ہیں، بغیر بتی کے ٹریکٹر اور ٹرالیاں، جس طرح خلق خدا کا امتحان لیتی ہیں۔ گائے بھینسوں کا ریوڑ جس طرح چرواہے کی قیادت میں تیز رفتار ہائی وے پر اچانک قدم رنجہ فرماتا ہے، یہ سب مناظر ٹریفک پولیس والوں کے لئے غالباً ٹانک کا کام دیتے ہیں۔ ورنہ آئے دن سڑکوں پر انسانوں کا یوں قتل عام نہ ہوتا۔
اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اور زیادہ ’’افسوس‘‘ کی بات ہے کہ فرعون کو کالج کے علاوہ ٹریفک پولیس کی بھی نہ سوجھی ورنہ وہ سارے موسیٰ پیدا ہوتے ہی سڑک پر مروا دیتا۔ پولیس والوں کی دیہاڑی بھی بن جاتی، فرعون کا کام بھی ہو جاتا اور وہ بدنام بھی نہ ہوتا۔ ٹریفک پولیس کی ’’طبقاتی‘‘پالیسی کا ایک دلچسپ ثبوت اس وقت ملتا ہے جب کوئی کار ٹریفک کے کسی رول کی خلاف ورزی کرے تو اس چوک پر کھڑا ٹریفک پولیس کا کانسٹیبل دونوں ہاتھوں کو کتھک ڈانس کے انداز میں حرکت دیتا اور ’’کوڈی کوڈی ‘‘ کہتا ہوا عین کار کے سامنےیوں آن کھڑا ہوتا ہے جیسے اگر آپ نے اس کے اشارے پر کار نہ روکی تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ آپ کی کار کے نیچے آ کر جان دے دے گا۔ ان لمحوں میں ملکہ ترنم بہت یاد آتی ہیں؎
دل توڑیں گا تے دے دیاں گی جان
توں جا کے وخا تے سہی
پھر اس کے بعد بھائوتائو ہوتا ہے لیکن اگر کار میں سوار شخص کوئی ’’بگ گن‘‘ ہے تو بھائو ختم ہو جاتا ہے اور باقی تائو رہ جاتا ہے اور بے چارہ کانسٹیبل اپنا یہ تائو کسی اور پر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم اگر ٹریفک پولیس کے اصل کمالات دیکھنے ہوں تو اس وقت دیکھیں جب کوئی جلوس نکلا ہو۔ جلوس کے شرکا کی تعداد اس ضمن میں زیادہ اہمیت کی حامل نہیں چنانچہ یہ جلوس اگر پندرہ بیس افراد پر بھی مشتمل ہوتو ٹریفک پولیس انتظامیہ کے بزرجمہروں کے تعاون سے اس طرف جانے والے تمام رستے بند کردیتی ہے اور یہ ارد گرد کی سڑکوں پر جو کہرام مچتا ہے ٹریفک جس طرح جام ہوتی ہے، نفسا نفسی کا جو عالم نظر آتا ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے روز محشر کی ریہرسل ہو رہی ہو۔ ایک دفعہ میں نے ایک پولیس والے سے پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کرتے ہو؟ اس نے اطمینان سے جواب دیا ’’ہمیں جتنی تنخواہ ملتی ہے اس کے نتیجے میں ہمارے گھر روزانہ وہی صورت حال پیدا ہوتی ہے جو سڑکیں بند کرنے کی صورت میں آپ کو ارد گرد کی سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔
ٹریفک پولیس کے ’’بڑے دماغ‘‘ شہر میں ٹریفک کی جس طرح پلاننگ کرتے ہیں اس کے پیش نظر میری خواہش ہے کہ ان کا دماغ عاریتاً نیورو سرجن کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ پتہ چلا سکیں کہ ان دماغوں میں ایسی ایسی نادر چیزیں آتی کس طرح ہیں؟آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی کسی چوک میں رائونڈ ابائوٹ تعمیر کر دیا جاتا ہے، کبھی ڈھا دیا جاتا ہے، کبھی ایک اضافی لین بنائی جاتی ہے جس کا مقصد اللہ جانے کیا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ٹریفک پولیس کی صلاحیتیں ایک محدود پیمانے پر استعمال کرکے ان کے ساتھ اور قوم کے ساتھ زبردست زیادتی کی جا رہی ہے، کہ ان کے سارے لچھن اور ان کی ساری پلاننگ صاحبان اقتدار والی ہے۔ یعنی دونوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں قوم پریشان ہوتی ہے۔ لہٰذا ٹریفک پولیس کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس’’ دوٹَکیاںدی نوکری‘‘ کو ٹھوکر ماریں اور سیاست میں آئیں تاکہ ان کے جوہر پوری طرح کھل سکیں۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی تھا