چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہو رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز سماعت کر رہے ہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اعتراضات پر جوابی دلائل دیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا معاملہ بھی اہم ہے، عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات عدالت کے سامنے رکھیں، دستاویزات کے مطابق جج کی تعیناتی کا پراسس ہائی کورٹ سے شروع ہوا، کیس کے جیل ٹرائل سے متعلق اختیار عدلیہ کے پاس ہے، ایگزیکٹو نے اس پر عمل کے لیے انتظامات کرنا ہوتے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیا، شاہ محمود کو اتوار کو احاطہ عدالت میں جج کے سامنے ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا، 16 اگست کو اوپن کورٹ میں جوڈیشل ریمانڈ منظورکیا گیا، اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کا عدالت میں پیش کیے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور ہوا، الیکٹرانک میڈیا کو ہدایات دی گئیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا نام نہیں چلانا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں اسپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، سیکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائیں۔

جسٹس گل حسن نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکر بھی نہیں، نہ ہی وزارتِ داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے، حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست پر عدالت نوٹس کر کے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے، جج کی جانب سے 2 اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے، جج نے اس خط میں پوچھا کہ ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟ جج اس خط میں پوچھ رہے تھے کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کے لیے تیار ہوں، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے، جس سیکشن کا حوالہ ہے اس کے تحت عدالت کا وینیو بدلا ج سکتا ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، یہ سزائے موت یا عمر قید کا کیس ہے، اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سوال کیا کہ اگر سیکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہیے تھا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ راجہ صاحب! آپ اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں۔

گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔

عدالت نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر آج تک حکمِ امتناع جاری کر رکھا ہے۔

گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر کابینہ کی منظوری سے آگاہ کیا تھا۔