مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
رحمن ملک
رحمن ملک کی وفات سے پاکستانی تاریخ کا ایک بڑا باب بند ہوا ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2006ء میں لندن میں ہوئی تھی جب میں وہاں ایک انگریزی اخبار کی رپورٹنگ کیلئے موجود تھا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی لندن موجودگی کی وجہ سے یہ شہر خبروں میں تھا۔ ضیاالدین صاحب‘ ارشد شریف اور لندن کے صحافی دوستوں بشمول اظہر جاوید کا یہی کام ہوتا تھا کہ بینظیر بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں کی خبر لینی ہے تو ایجوائے روڈ پر رحمن ملک کے فلیٹ کا چکر لگایا جائے جہاں بی بی موجود ہوتی تھیں‘ اگر وہ لندن میں ہوں تو۔ وہاں سے پیدل چلتے‘ آکسفرڈ سٹریٹ کے ساتھ واقع ڈیوک سٹریٹ پر نواز شریف کے دفتر جا کر ان کی سن گن لیتے۔ وہاں دفتر کے نیچے واقع کیفے میں نادر چوہدری صاحب کے ساتھ پاکستانی سیاست اور دیگر ایشوز پر کافی پر گپ شپ ہوتی یا پیزے کھاتے۔ پرویز رشید صاحب بھی وہاں ملتے اور ان کے ساتھ لمبی گپ شپ رہتی۔
رحمن ملک بینظیر بھٹو کے بہت قریب تھے‘ لہٰذا پاکستان سے جانے والے پی پی کے تمام لیڈر رحمن ملک کی نظر کرم کے منتظر رہتے۔ایک دن بینظیر بھٹو وہاں آئی ہوئی تھیں اور بہت اہم فیصلے انہوں نے کرنے تھے کیونکہ پرویز مشرف وردی کے ساتھ خود کو دوبارہ صدر بنوانا چاہتے تھے۔ وہ بینظیر بھٹو کو کہہ رہے تھے کہ این آر او کے بدلے انہیں ووٹ ڈالے جائیں۔ اس پر بی بی نے پارٹی کی ہائی کمانڈ کو لندن طلب کیا تھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔ یوسف رضا گیلانی بھی جنرل مشرف کی قید سے رہائی کے بعد پہلی دفعہ لندن پہنچے تھے۔ وہاں میں عید کا سماں لگتا تھا۔ ایجوائے روڈ سے ڈیوک سٹریٹ تک آپ کو ہر جگہ پاکستانی نظر آتے۔ زیادہ تر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز تھے۔ آپ کسی ایک کیفے میں کافی پینے جاتے تو وہاں پاکستانی سیاستدانوں کا پورا گروپ آپ کو مل جاتا۔ وہاں سے کہیں اور جاتے تو وہاں دوسرا گروپ بیٹھا ہوتا۔
بینظیر بھٹو کی لندن میں نقل و حرکت‘رہائش یا ہیتھرو ایئرپورٹ سے پک اینڈ ڈراپ رحمن ملک کے ذمے تھا۔ اگر کوئی بینظیر بھٹو کے قریب تھا تو وہ رحمن ملک ہی تھے۔ سب رازوں کے امین۔ ان کے گھر پر ہی سب اجلاس ہوتے اور پریس کانفرنسیں بھی ہوتی تھیں۔ایک دن وہاں جب بینظیر بھٹو نے اجلاس کی صدارت کرنی تھی تو ان کے گھر کے باہر واقع پلاٹ میں ہم سب موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کے سب بڑے لیڈر وہاں ہمارے ساتھ پلاٹ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کب رحمن ملک کے فلیٹ کا دروازہ کھلے‘ انہیں اندر آنے کا اشارہ ہو اور وہ اندر جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن دو تین گھنٹے تک پی پی پی کے بڑے بڑے لیڈرز وہاں پلاٹ میں بیٹھے رحمن ملک کے فلیٹ کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پی پی پی دور کے ایک وزیرداخلہ کو بھی وہاں فلیٹ کے باہر انتظار کرتے دیکھا۔ وہ وزیرداخلہ کبھی رحمن ملک کے باس تھے‘ جب وہ ایف آئی اے میں جاب کرتے تھے۔ وہی تب رحمن ملک کے گھر کے باہر انتظار کررہے تھے۔ میں دور بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ایک لمحے کے لیے گوتم بدھ کی بات یاد آگئی۔ کسی نے پوچھا‘ اے گرو انسان کی سب سے بڑی دشمن کیا چیز ہے؟ گرو نے جواب دیا : انسان کی خواہشات۔ان سب کو ان کی خواہشات نے مجبور کیا تھا کہ وہ لندن پہنچ کر گھنٹوں رحمن ملک کے گھر کے باہر پارک میں انتظار کریں تاکہ بی بی سے مل سکیں۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ انسان کی اپنے جیسے انسانوں پر راج کرنے کی خواہش کتنی خطرناک ہوتی ہے کہ آپ اس فلیٹ کے باہر انتظار بھی کر لیتے ہیں جس کے مالک کے کبھی آپ باس تھے‘ جو کبھی آپ کے گھر ریفریجریٹر تک چھوڑنے آتا تھا تاکہ صاحب خوش ہوں۔ حالات بھی انسانوں کو کیا کیا دکھاتے ہیں۔
خیر اس اجلاس میں اہم فیصلے ہونے تھے۔ پنجاب سے شاہ محمود قریشی تو سندھ سے صفدر عباسی اور ناہید خان وہاں اپنی اپنی فائلوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس فہرست میں ق لیگ کے ان تمام ایم این ایز کے نام موجود تھے جو مشرف اور بینظیر بھٹو کی خفیہ ملاقاتوں اور این آر او کی خبروں کے بعد پیپلز پارٹی جوائن کرنا چاہتے تھے۔ شاہ محمود قریشی اپنی فائل بغل میں دابے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ وہ پنجاب میں پی پی پی کے اہم عہدے دار تھے اور ان کا خیال تھا کہ جب وہ یہ فہرست بی بی کو پیش کریں گے تو وہ خوشی سے اچھل پڑیں گی کہ واہ شاہ جی کمال کر دیا آپ نے‘ اب تو اگلا الیکشن ہم آرام سے جیت جائیں گے کہ اتنے الیکٹ ایبلز ہماری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔خیر وہ اجلاس لمبا چلا اور جب اجلاس کے بعد کچھ رہنما باہر نکلے تو میں نے کچھ چہرے مرجھائے ہوئے دیکھے۔ ان ناخوش چہروں میں یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی نمایاں تھے۔ میں نے کچھ ذرائع سے پوچھا کہ کیا ہوا‘ ان دونوں کو تو خوش خوش باہر نکلنا چاہئے تھا۔ جب میں نے اس سورس کو کچھ مزید کریدا تو اس سے بڑی زبردست خبریں نکلیں کہ شاہ محمود قریشی کا منہ کیوں لٹکا ہوا تھا اور سب سے بڑھ کر یوسف رضا گیلانی کیوں افسردہ تھے۔سورس نے مجھے بتایا کہ آپ کو کل تک رحمن ملک کا فون آئے گا۔ وہ آپ سے ملاقات کریں گے۔ میںکچھ حیران ہوا۔ میرے اس قابلِ اعتماد سورس نے مجھے ملاقات کی وجہ بتائی تو میری آنکھیں کھلتی گئیں۔ اس نے کہا کہ باقی جب ملک صاحب آپ سے ملیں گے تو آپ کو خود پتہ چل جائے گا کہ وہ آپ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس آپ کے لیے کیا پیکیج ہے۔ دیکھتے ہیں آپ کیا کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے آج اجلاس میں آپ کے حوالے سے کچھ بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔
میرا تجسس مزید بڑھ گیا کہ کیا کھیل چل رہا ہے۔ وہ سورس بولا کہ ساری باتیں مجھ سے نہ پوچھیں آپ کو کل رحمن ملک خود بتائیں گے۔خیر اگلے دن صبح سویرے رحمن ملک کا میسج آیا کہ آئیں آپ کو ایجوائے روڈ پر لنچ کراتے ہیں۔میرے سورس کی خبر درست نکلی کہ کچھ نہ کچھ کہیں پک رہا تھا۔میں نے بھی سوچا رحمن ملک یقینا کوئی اہم خبر شیئر کریں گے۔ ان سے بہتر کس کے پاس خبریں ہوسکتی ہیں۔ انہی دنوں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی بھی لندن آئے ہوئے تھے اور بینظیر بھٹو سے مل کر پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی تفصیلات فائنل کررہے تھے وہیں مستقبل کی پاکستانی سیاست کا نقشہ بھی ڈسکس کررہے تھے۔ رحمن ملک فوکل پوائنٹ تھے‘ لہٰذا مجھے یہ لالچ تھا کہ مجھے میرے اخبار کے لیے کچھ بڑی خبریں مل جائیں گی۔ کچھ سکُوپ۔
خیر میں مقررہ وقت پر اس خوبصورت ریسٹورنٹ میں پہنچ گیا جہاں رحمن ملک پہلے سے موجود تھے۔ دعا سلام اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انہوں نے سنجیدہ بات شروع کی۔ کہنے لگے: مجھے بینظیر بھٹو نے ایک پیغام آپ کے نام دے کر بھیجا ہے‘ میں آپ سے چند اہم باتیں ڈسکس کرنے آیا ہوں‘ بینظیر بھٹو کو آپ سے ایک مدد درکار ہے۔ میں حیران ہوا۔ لندن ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا‘ پاکستانی ٹاپ جنرل کیانی اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں موجود تھے‘ وہیں میری ضرورت پڑ گئی تھی اور وہ بھی بینظیر بھٹو کو اور ان کا ایک قریبی ساتھی اس وقت ریسٹورنٹ کے ایک کونے میں بیٹھا مجھے بینظیر بھٹو کا وہ اہم پیغام دے رہا تھا کہ میں ان کی کیسے مدد کر سکتا ہوں۔
مجھے خود پر ایک لمحے کو ہنسی بھی آئی کہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ رحمن ملک نے دھیمے لہجے میں بولنا شروع کیا اور میں توجہ سے سننے لگا۔ رحمن ملک نے بینظیر بھٹو کا طویل میسج مجھے سنایا اور کہا: جی! اب بولیں آپ کیا کہتے ہیں؟ میں حیرانی سے رحمن ملک کو تک رہا تھا۔ (جاری)