سارہ انعام قتل کیس، ملزم شاہ نواز امیر کیلئے سزائے موت کی استدعا

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں مدعی مقدمہ کے وکیل نے مقتولہ سارہ انعام کے قتل کے ملزم ان کے شوہر شاہ نواز امیر کی سزائے موت کی استدعا کر دی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس کی جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی جس کے دوران مرکزی ملزم شاہ نواز میر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے دوران مقتولہ کے والد انعام الرحیم، ملزم شاہ نواز امیر کے والد ایاز امیر اور مرکزی ملزم کی والدہ ملزمہ ثمینہ شاہ کمرۂ عدالت میں موجود تھیں۔

مدعی کے وکیل راؤ عبدالرحیم اور پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل دیے۔

مدعی کے وکیل راؤعبدالرحیم نے اپنے حتمی دلائل کے دوران کہا کہ ملزم کے موبائل سے تصاویر ملیں جن میں سارہ انعام کی لاش پر چادر پڑی ہوئی تھی، آلۂ قتل ڈمبل بھی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، جائے وقوع شاہ نواز امیر کا گھر ہے، ملزم کے مطابق سارہ انعام کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہوا، سارہ انعام تو خوش تھیں۔

مدعی کے وکیل راؤعبدالرحیم نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ جس تاریخ کو طلاق نامہ جمع کروایا، اس دن سارہ پاکستان میں نہیں تھیں، تصویر کے مطابق سارہ انعام کی موت صبح 5 بجے واقع ہو چکی تھی، شاہ نواز امیر اور ثمینہ شاہ کے مطابق پولیس کو اُنہوں نے اطلاع دی، وقوعے کے وقت فارم ہاؤس پر صرف 3 افراد تھے،ثمینہ شاہ، شاہ نواز امیر اور سارہ انعام، دفاع میں درج کیا گیا ڈکیتی کا مقدمہ 2018ء کا ہے، 2022ء میں قتل نہیں ہو سکتا، چشم دید گواہ جھوٹ بول سکتا ہے لیکن دستاویزات جھوٹ نہیں بول سکتیں، سارہ انعام جب گھر پہنچی تو جھگڑا ہوا، مقتولہ کا موبائل توڑا گیا، سارہ ملزمان کے رحم و کرم پر تھی۔

مدعی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سارہ انعام کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے، کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی، بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بچی تڑپی ہو گی، کیسے ممکن ہے کہ ثمینہ شاہ نے کچھ نہیں سنا، پوسٹ مارٹم کے مطابق سارہ انعام کے تمام زخم موت واقع ہونے سے پہلے کے ہیں۔

مدعی کے وکیل راؤ عبدالرحیم نے کہا کہ شاہ نواز امیر نے کہا کہ طلاق نہیں دی جبکہ فارنزک کے مطابق واٹس ایپ میسج میں طلاق دی گئی، دو دن پہلے گھر کا ڈی وی آر اتارا گیا، کوئی تو وجہ بتا دیتے، تمام تر شہادتوں کے مطابق شاہ نواز امیر کا جرم ثابت ہوتا ہے۔

مدعی کے وکیل راؤعبدالرحیم نے حتمی دلائل یہ کہتے ہوئے مکمل کیے کہ سارہ انعام جیسا ہی نور مقدم قتل کیس بھی تھا۔

دورانِ سماعت مدعی کے وکیل راؤ عبدالرحیم کی جانب سے سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ نواز امیر کی سزائے موت کی استدعا کی گئی۔

پراسکیوٹر رانا حسن عباس کے حتمی دلائل

مدعی کے وکیل کے حتمی دلائل کے بعد سماعت کے دوران سارہ انعام قتل کیس میں پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے عدالت میں کہا کہ سارہ کے قتل کا واقعہ ملزمان نے نہیں، پولس نے رپورٹ کیا، سارہ انعام ایک پڑھی لکھی، اچھے خاندان سےتعلق رکھنے والی خاتون تھیں، 2022ء میں سارہ انعام کی شاہنواز امیر کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔

پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے کہا کہ وقوعہ کے روز شاہنواز امیر سے موبائل فون برآمد ہوئے، 18ستمبر2022ء کو سارہ انعام کی شاہنواز امیر کو کال آئی۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر رانا حسن نے سارہ انعام اور شاہنواز امیر کے درمیان کال کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے مزید کہا کہ متعدد مرتبہ ملزم شاہنواز امیر نےسارہ انعام کو واٹس ایپ پر بلاک کیا، شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو دھمکیاں دیں، سارہ انعام نے صرف شاہنواز سے درخواست کی کہ میرے والدین کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کا موقع دو، سارہ نے شاہنواز کو میسج پر پوچھا کیا آپ رخصتی نہیں چاہتے؟ شاہنواز نے کہا نہیں۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے عدالت کو بتایا کہ ، سارہ کے ساتھ شاہنواز کی چیٹ میں 3 میسجز ڈیلیٹ کیے گئے،ڈیلیٹ میسجز ممکنہ طور پرطلاق دینے کے تھے، 22 ستمبر ساڑھے 6 بجے سارہ انعام پاکستان پہنچیں اور ملزمان کے گھر رہیں، قتل کا واقعہ ہوا پولیس پہنچی تو ملزمہ ثمینہ شاہ نے بتایا کہ بیٹے شاہنواز نے قتل کیا، سارہ انعام کی لاش پر موجود زخموں سے شاہنواز امیر کا ڈی این اے میچ ہوا، وقوعہ والے دن شاہنواز امیر کی قمیض، ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کی نشاندہی پر آلہ قتل ڈمبل برآمد ہوا جس پر خون اور بال موجود تھے، جائے وقوعہ سے سارہ انعام اور شاہنواز امیر کا ڈی این اے ملا۔

حتمی دلائل سننے کے بعد سیشن جج ناصر جاوید نے آج میٹنگ پر جانے کے باعث سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی۔