سارہ انعام قتل کیس ،پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کے حتمی دلائل مکمل

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کے حتمی دلائل مکمل ہو گئے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے عدالت کو حتمی دلائل میں بتایا کہ سارہ انعام کو ٹارچر کیا گیا، جسم پر بیشتر زخموں کے نشانات ہیں، تفتیش میں کسی بھی تیسرے شخص کا ڈی این اے نہیں ملا۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تفتیش میں شاہ نواز امیر کا ڈی این اے میچ ہوا، ملزم نے ثبوتوں کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی، فارم ہاؤس کی سی سی ٹی وی ویڈیو 2 دن قبل ڈسکنکٹ کی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے بتایا کہ شاہ نواز امیر نے سارہ انعام کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا، سارہ انعام کو واٹس ایپ پر دھمکی آمیز پیغامات بھی بھیجے۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شاہ نواز امیر کی سارہ انعام کے ساتھ ہونے والی واٹس ایپ چیٹ ریکور ہو چکی ہے، سارہ انعام ملزم سے پوچھتی رہیں کہ میرے ساتھ ایسی بد سلوکی کیوں کر رہے ہیں، طلاق کے میسجز بھی ریکور ہو چکے ہیں، ملزم نے پیغامات کو ڈیلیٹ کیا تھا۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے بتایا کہ سارہ انعام کو ساری رات ٹارچر کیا گیا، منہ پر تھپڑوں کے نشانات جبکہ بازوؤں پر بھی زخم تھے جنہیں دیکھ کر قتل سے پہلے تشدد ثابت ہوتا ہے۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سارہ انعام کی لاش پر متعدد جگہ بری طرح نیل بھی پڑے ہوئے تھے، رپورٹ کےمطابق موت پوسٹ مارٹم کےوقت سے 12 سے 24 گھنٹے پہلے ہوئی۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شاہ نواز امیر کی والدہ گھر پر موجود تھیں، کیسے ہو سکتا ہے کہ سارہ کی آواز نہ آئی ہو، ملزمہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو آگاہ کرنے کی بجائے ملزم کے والد ایاز امیر کو کال کی۔

پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ ملزم کی والدہ نے والد کو کال کی، پولیس کو کال کیوں نہیں کی؟

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سارہ انعام ابوظبی میں اعلیٰ عہدے پر نوکری کرتی تھیں، اُنہیں پاکستان بلا کر بری طرح ٹارچر کیا گیا، وہ ایک اہم زندگی تھیں جو ضائع ہو چکی، واپس نہیں آ سکتی۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے عدالت سے ملزم شاہ نواز امیر کے لیے سزائے موت کی استدعا کرتے ہوئے اپنے حتمی دلائل مکمل کر لیے۔