سیلاب اور کھانچوں کا سیزن

یقین کریں بعض اوقات ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر کالم لکھتے ہوئے اپنی بے کار سی زندگی پر شرم آتی ہے کہ آخر ہم لوگ ایمان کے اُس پہلے درجے تک کیوں نہیں پہنچ پائے جہاں بندہ اپنے مالک کی رضا اور مخلوقِ خدا کی آسانی اور سہولت کے لیے اپنے آپ کو میدانِ عمل میں وقف کردیتا ہے۔ ہم گنہگار اس بات پر ہی مطمئن ہیں کہ ہم ایمان کے دوسرے درجے پر فائز ہیں اور لکھ کر یا بول کر اپنا فرض پورا کر رہے ہیں مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ واقعہ میں ”اَصحاب الیمین‘‘ یعنی داہنے ہاتھ والا کہا ہے‘ ان کی خوش نصیبی کا کیاکہنا۔ کاش ہم ویسے بن سکتے مگر دنیا داری اور آرام طلبی نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔
کیا لوگ ہیں جو اس مصیبت میں اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں اور بچوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور اپنا آرام تیاگ کر ایسی صورتحال میں شب و روز مصروفِ عمل ہیں جہاں نہ رات سونے کیلئے کوئی مناسب بندوبست ہے اور نہ دن گزارنے کیلئے کوئی سایہ یا پناہ گاہ۔ پھر ایسے بے لوث کہ نہ نام و نمود کی پروا ہے اور نہ پبلسٹی کا جھنجھٹ۔ نہ فیس بک پر کوئی پوسٹ ہے اور نہ واٹس ایپ پر کوئی تصویر۔ نہ کسی کو راشن دیتے ہوئے سیلفی کا شوق ہے اور نہ ہی کسی مصیبت زدہ کی ہاتھ پھیلائے ہوئے تصویر کو اَپ لوڈ کرنے کا خبط۔ حتیٰ کہ قمیص پر کسی تنظیم کا لوگو ہے نہ کوئی نام۔ بس رضائے الٰہی مقصود ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو لبرلز سارا سال جگتیں مارتے نہیں تھکتے۔ جن پر طعنے بازی کی جاتی ہے اور ہم جن کو عالمی اداروں میں اپنی ساکھ بہتر کرنے کی غرض سے راندۂ درگاہ قرار دیتے ہوئے پابندیاں لگا دیتے ہیں مگر وہ ہیں کہ کسی پابندی کو خاطر میں لائے بغیر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ادھر ایک ہم ہیں کہ چار حرف لکھ کر اترا رہے ہیں۔ شاعر بے بدل افتخار عارف کے بقول :
سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی
کیا ہم اور کیا ہمارا لکھنا؟ اجر کے حقیقی حقدار تو وہی ہیں جو تن من دھن سے مخلوقِ خدا کی آسانی کیلئے میدانِ عمل میں ہیں اور اوپر سے بارش‘ نیچے سے پانی اور اگست کے سورج کی حدت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حبس کی شدت میں اپنا سارا آرام اور گھر بار چھوڑ کر بے گھروں کی داد رسی کیلئے مصروفِ عمل ہیں۔ ایک طرف وہ ہیں جو اپنا سب کچھ وقف کیے ہوئے ہیں اور اُن کے معاون وہ ہیں جو زرِ تعاون سے اِن مشکل میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔ دوسری طرف ایسے شقی القلب بھی ہیں جو اس مصیبت سے بھی اپنے لیے منافع نکال رہے ہیں۔ کیا ترپالوں والے اور کیا ٹینٹوں والے۔ رمضان میں کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں بیچنے والے تاجروں کے بھائی بند اس مصیبت میں ایسی اشیا جن کی اُن مصیبت زدہ لوگوں کو اس وقت اشد ضرورت ہے‘ مہنگے داموں بیچ کر اضافی منافع کما رہے ہیں۔ مصائب و آلام کے موسم میں یہ بے رحم اپنا ”سیزن‘‘ لگا رہے ہیں۔
زمینی صورتحال یہ ہے کہ عام طور پر درمیانے درجے کا ریلیف کا تجربہ رکھنے والی تنظیمیں اور اس کام میں نئے نئے آنے والے افراد اپنی ساری امداد لے کر ان جگہوں پر جا رہے ہیں جو نہ صرف قابلِ رسائی ہیں بلکہ ایسی جگہیں ہیں جہاں ہر کوئی پہنچ رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہاں ہے جہاں تک عام آدمی کی رسائی مشکل ہے اور وہاں کسی قسم کا امدادی سامان یا کارروائی نہیں ہو رہی۔ ان جگہوں تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہے۔ آرمی کے علاوہ ایک دو گنتی کی تنظیمیں ہیں جن کے پاس ایسے افراد ہیں جو اخلاص اور بے غرضی کے ساتھ ساتھ اس کام کی مہارت رکھتے ہیں‘ مشکل اور ناقابلِ رسائی علاقوں تک پہنچنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ مجھے لوگوں کے خلوص اور نیت پر رتی برابر شبہ نہیں لیکن اس قسم کے کاموں کیلئے ناتجربہ کار لوگوں کو آگے کرنے سے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اپنی ناتجربہ کاری کے باعث اکٹھی ہونے والی رقوم کو غیر ضروری اشیا کی خریداری پر خرچ کر دیتے ہیں جن کی متاثرہ علاقوں میں حقیقی طور پر ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ وہ ایسی بہت سی ضروری اشیا مستحقین تک نہیں پہنچا پاتے جن کی ان کو فی الواقع ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی حقیقی ضرورت کا درست ادراک نہ ہونے کے باعث ان کی کاوشیں اور امداد میں دی جانے والی رقم اس طرح خرچ نہیں ہو پاتی جس طرح کوئی تجربہ کار تنظیم‘ جسے ایسے حالات میں متاثرین کی حقیقی ضرورتوں کا علم ہوتا ہے‘ کر سکتی ہے۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے گھر سے کھانا لے جانے کی حد تک تو اور بات ہے لیکن امدادی سامان یا نقد رقم دیتے وقت صرف اور صرف ریلیف کا تجربہ رکھنے والی تنظیموں کو ترجیح دیں تاکہ آپ کی دی گئی امداد درست طریقے سے حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچ سکے۔ ابھی چند دنوں کے بعد شہروں میں پیشہ ور منگتوں کی فوج ظفر موج آنے والی ہے جو سیلاب میں برباد ہو جانے کی کہانی سنا کر آپ کے جذبات سے کھیلے گی جبکہ حقیقی متاثرین کی مشکلات اگلے کئی سال کے دورانیے پر محیط ہیں۔
عام آدمی کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید سندھ میں سیلاب دریائے سندھ میں طغیانی کے باعث آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک سندھ میں آنے والا یہ بدترین سیلاب صرف آسمان سے برسنے والے پانی کے باعث آیا ہے۔ سترہ‘ اٹھارہ اور انیس اگست کو ہونے والی بارشوں نے اوباڑو سے بدین تک سارے علاقے کو جھیل میں بدل دیا ہے۔ اگر حکومتی لوگوں کی ترجیحات درست ہوتیں تو بقول ایک دوست کے‘ اس تباہ کن سیلابی پانی کا قریبی نہروں کے ذریعے اخراج کیا جا سکتا تھا جیسے نواب شاہ اور سکھر کے قریبی علاقوں کا پانی نصرت کینال میں ڈالا جا سکتا تھا (راوی نہ صرف یہ کہ معتبر ہے بلکہ اس کی بات میں وزن بھی ہے) مگراس نہر کا پانی اگر اوور فلو ہو گیا تو وہ سارا پانی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کی لمبی چوڑی زمین پر لگی ہوئی فصلوں کو برباد کر دے گا۔ اب بڑے لوگوں کی فصلیں تو برباد نہیں کی جا سکتیں۔ غریبوں کا کیا ہے؟ جیسی زندگی وہ پہلے گزار رہے ہیں اگر اس میں مزید سختی آگئی تو بھی یہ سخت جان اور ڈھیٹ لوگ برداشت کر لیں گے۔
ہے تو سخت بات لیکن ہمارے ہاں سیلاب بہت سے لوگوں کیلئے نوٹ کمانے کا سیزن ہے۔ بقول ایک انجینئر دوست یہ کم از کم بھی 500 ارب روپے کا کھانچہ ہے جو اوپر اوپر لگایا جاتا ہے اور اس کی ساری بربادی اور تباہی کا سامنا صرف اس ملک کا غریب کرتا ہے۔ امدادی رقوم سے سرکاری اہلکار اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ پھر ٹھیکیدار اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ سڑکیں‘ پل‘ نہریں‘ بند‘ سپر بند اور عوام کی بحالی کی مد میں لگائے جانے والے کھانچوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والی امدادی اشیا از قسم خوراک‘ خیمے اور تیار شدہ گھروں کیلئے آنے والا میٹریل جس طرح خورد برد ہوتا ہے اور مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے وہ کوئی راز کی بات نہیں۔ سیہون کے اے سی اور اندرون سندھ کے سیاستدانوں کی جانب سے امدادی اشیا کی غتر بود اور سیاستدانوں کے ذاتی گوداموں میں منتقلی دیگ میں سے ایک چاول کی مثال ہے‘ ہم کیا بے درد لوگ ہیں کہ مردے کے کفن کو بیچ کر موج میلا کرنے میں رتی برابر شرم محسوس نہیں کرتے۔ تبھی تو میں کہہ رہا ہوں کہ سیلاب ہمارے ہاں کھانچوں کا سیزن ہے۔