شاہ جی کی پریشانی

ضروری نہیں کہ قبلہ شاہ جی کی ہر بات سے اتفاق ہی کیا جائے؛ تاہم یہ تو ان کا جمہوری حق ہے کہ نہ صرف اپنا ذاتی موقف رکھیں بلکہ اسے پیش بھی کر سکیں۔ بقول شاہ جی ہماری حالیہ حکومت یعنی عمران خاں کے خلاف عدم اعتماد کے بعد وجود میں آنے والی حکومت جمہوری طریقے سے آنے والی اپنی نوعیت کی غالباً سب سے زیادہ مبینہ ملزمان پر مشتمل حکومت ہے۔ جو لوگ اب تک حکومت کا حصہ بن چکے ہیں‘ ان کی غالب اکثریت بھی مبینہ طور پر ملزمان کا جمعہ بازار ہے اور متوقع وزرا اور دیگر امدادی دستہ بشمول متوقع صدر مملکت پاکستان کی عدالتوں میں بطور ‘حاضر سروس‘ ملزمان پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کوئی صحت کے مسائل کے بہانے حاضری سے مستثنیٰ ہے اور کوئی ضمانت پر ہے۔ شاید ہی کوئی بندہ ہو جس کے پاس سو فیصد کلین چٹ ہو۔ شاہ جی کے بقول‘ انہوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد گزشتہ پچاس سال میں اس سے زیادہ مبینہ ملزمان پر مشتمل حکومت کا نظارہ کبھی نہیں کیا۔ شاہ جی کل ملے تو بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد کہنے لگے کہ مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی ہم لوگ اس ملک میں ایک عرصے سے پرانے لطیفے ہی تو سن اور بھگت رہے ہیں۔ اب اس عثمان بزدار والے لطیفے سے بڑھ کر اور کیا لطیفہ ہوگا جو ہم نے مسلسل ساڑھے تین سال تک سنا اور بھگتا۔ اب پرانے لطیفے سننے کی تاب نہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: تم خود ہی کہتے ہوکہ کوئی شعراور لطیفہ پرانا نہیں ہوتا بشرطیکہ سامعین نئے ہوں۔ میں نے لطیفے کو زمان و مکان کے حوالے سے پرانا کہا ہے ورنہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ نہ صرف یہ کہ بالکل نواں نکور لطیفہ ہے بلکہ تم نے شاید سُنا بھی نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: یہ بات ہے تو چلیں سنا دیں‘ دیکھتے ہیں آپ لطیفے کے تھیلے میں سے کون سی بلی نکالتے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: پرانے زمانے کا ذکر ہے‘ ایک بادشاہ کا دل شکار کرنے کو چاہا۔ ظاہر ہے بادشاہوں کو اور تو کوئی کام نہیں ہوتا تھا‘ لہٰذا وہ اسی قسم کی مصروفیات میں لگے رہتے تھے۔ میں نے شاہ جی کو ٹوکتے ہوئے عرض کیا کہ قبلہ! ذاتی خیالات اور کمنٹری کرنے کے بجائے اگر لطیفہ سنا دیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ شاہ جی گرمی کھا کر کہنے لگے: وہ جو تم اپنے کالم میں اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہتے ہو اس پر ہم نے کبھی اعتراض کیا ہے جو تم میری تھوڑی سی تمہید اور تبصرے سے گھبرا گئے ہو؟ میں نے شاہ جی سے اپنی گستاخی کی فوراً معافی مانگ لی اور مؤدب ہوکر بیٹھ گیا۔ شاہ جی کہنے لگے کہ بادشاہ نے شکار کی مہم میں مزید ایڈونچر اور دلچسپی پیدا کرنے کی غرض سے یہ فیصلہ کیا کہ یہ شکاری مہم عام شکاریوں کے بھیس میں روانہ ہوگی اور کسی ہٹوبچو اور باادب باملاحظہ ہوشیار قسم کی صدائوں سے بالکل پاک ہوگی۔ ساری شکاری پارٹی جس میں بادشاہ کے ساتھ وزیراعظم، وزرائے سلطنت، مشیران، کوتوال، سپاہ سالار، میر شکاری، ہانکا کرنے والے اور دیگر ملازمین از قسم باورچی، خانساماں اور نوکر چاکر شامل تھے عام سادہ لباسوں میں شکار کیلئے روانہ ہوگئے۔ قریبی جنگل میں پہنچے تو پتا چلا کہ گزشتہ سیزن میں بے تحاشا شکار کئے جانے والے جانوروں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہر سال کی طرح اس مرتبہ دریا پار والے جنگل سے جانور اس جنگل میں نہیں آئے لہٰذا شکار کیلئے وافر جانور دکھائی نہیں دے رہے۔ پتا چلا کہ بارشوں کی کثرت کے باعث دریا کا پانی کناروں سے باہر تک بہہ رہا ہے اور جونہی پانی کم ہوگا جانور پار والے جنگل سے ادھر آ جائیں گے۔ بادشاہ نے کہا کہ بجائے ہم دریا پار والے جانوروں کے انتظار میں اپنا شکار ایک دو ماہ کیلئے مؤخر کریں کیوں نہ دریا پار والے جنگل میں جاکر شکار کیا جائے۔ سب نے بادشاہ کی تائید کی اور وہ ادھر چل دیئے۔ دریا پر جا کر انہوں نے ایک بڑی کشتی کرائے پر لی اور سب اس میں سوار ہوگئے۔ دریا چڑھا ہوا تھا اور اس کا پاٹ کئی میل پر پھیل چکا تھا۔ سفر کی طوالت سے بور ہوکر بادشاہ نے اپنے وزیروں اور مصاحبوں سے کہا کہ کیوں نہ ہم اپنے بچپن کی کوئی یادگار بات آپس میں بیان کریں۔ سب نے حسب روایت بادشاہ کی بات کی پرزور تائید کردی۔ اب بادشاہ نے بات شروع کی اور بتایا کہ وہ کس طرح بچپن میں اپنی والدہ کے سرہانے کے نیچے سے روزانہ ایک سونے کی اشرفی چرا لیا کرتا تھا اور اس کی والدہ‘ جو اشرفیاں گنے بغیر ہی اپنے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوتی تھی اور صبح بغیر گنے ان کو خیرات کر دیا کرتی تھی‘ کو کبھی بھی علم نہیں ہوسکا کہ میں روزانہ اس کے سرہانے کے نیچے سے ایک اشرفی نکال لیتا ہوں۔ بادشاہ نے بات ختم کی تو وزیراعظم نے اپنے بچپن کی بات شروع کی۔ اب چونکہ بادشاہ نے اپنے بچپن میں اشرفی کی چوری کا قصہ بیان کیا تھا لہٰذا سب پر لازم ہو چکا تھاکہ وہ بھی بچپن میں اپنی اپنی چوریوں کے قصے بیان کریں۔ بھلا یہ کس طرح ممکن تھا کہ بادشاہ تو اشرفی چوری کا واقعہ بیان کرے اور وزیر، مصاحب اور ملازمین اپنی نیکوکاری کے قصے بیان کرتے‘ لہٰذا وزیراعظم نے بھی بچپن میں ہمسایوں کے کبوتر چوری کرنے کا واقعہ بیان کیا۔ وزیر خزانہ نے عید والے دن اپنے والد کی جیب میں سے دو اشرفیاں چوری کا واقعہ سنایا۔ وزیر زراعت نے اپنی والدہ کی سونے کی انگوٹھی چوری کرکے بیچ کھانے کا واقعہ سنایا۔ کوتوال شہر نے بھی میلے میں حلوہ پوری کے سٹال سے حلوہ پوری چوری کرکے کھانے کا واقعہ بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا۔ سفر لمبا تھا‘ لہٰذا بات وزیروں، مشیروں اور صاحبوں سے چلتے چلتے عام ملازمین تک پہنچ گئی۔ ملازمین کو تو بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر کوئی کہانی نہ بنانا پڑی۔ ان کی زندگی میں اس قسم کے درجنوں حقیقی واقعات تھے‘ لہٰذا انہوں نے بھی مرچ مسالے لگا کر چوری کے واقعات کو بڑے فخریہ انداز میں سنایا۔ سفر گو کہ لمبا تھا لیکن وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا؛ تاہم ابھی سفر ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ بادشاہ کو خیال آیاکہ کشتی میں سوار ہرشخص نے اپنے بچپن میں کی جانے والی کوئی نہ کوئی چوری تو بیان کردی ہے مگر اس کشتی کے ملاح نے اس اعترافی گفتگو میں اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ اس نے ملاح سے کہا کہ وہ بھی اپنے بچپن میں کی جانے والی کسی چوری کا واقعہ بیان کرے۔ ملاح کہنے لگا جناب! میرے بچپن میں کی جانے والی کسی چوری پر تو لعنت بھیجیں۔ میں گزشتہ چالیس سال سے اس پتن پر کشتی چلا رہا ہوں لیکن میں نے ان چالیس سالوں میں اس سے زیادہ شوقیہ چوروں پر مشتمل پور (کشتی کے کل مسافروں پر مشتمل پھیرا) پہلے کبھی نہیں اٹھایا۔ پھر شاہ جی میری طرف دیکھ کر کہنے لگے: میں نے بھی ہوش میں آنے کے بعد گزشتہ پچاس سال میں اس سے پہلے اتنے زیادہ مبینہ ملزمان پر مشتمل حکومتی پور کبھی نہیں دیکھا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب مقصود چپڑاسی کی ٹی ٹیوں والے کیس میں ضمانت پر ہیں۔ مبینہ طور پر متوقع صدارتی امیدوار فالودے اور پاپڑ والے کی ٹی ٹیوں میں ابھی ‘حاضر سروس‘ ملزم ہیں۔ متوقع وزرا کی ایک لمبی لسٹ ہے جو ہائوسنگ سکیموں میں، ترقیاتی کاموں میں غتربود کے سلسلے میں عدالتوں میں حاضر ہورہے ہیں۔ سپیکر صاحب کی شہرت کسی اور نام سے ہے۔ حالانکہ اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں لیکن میں تو یہ سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی اس دوران سزا ہو گئی تو دنیا میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی؟