پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
کیا کالم نگار کی سیاسی وابستگی نہیں ہونا چاہئے؟
عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ کالم نگار کی سیاسی وابستگی کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہونی چاہئے لیکن مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ میری نظروں سے کوئی کالم نگار ایسانہیں گزرا جس کی سیاسی وابستگی کسی جماعت یا کسی رہنما کے ساتھ نہ ہو۔ اگر کوئی کالم نگار سب سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں میں سے کسی کیلئے بھی دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتا اور کہتا ہے کہ یہ سب چور ہیں، ڈاکو ہیں،لٹیرے ہیں تو یہ بھی ایک سیاسی نظریہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم سب کو رد کردیں گے تو پھر ایک دن ’’میرے پیارے ہم وطنو‘‘ کی آواز تمام ٹی وی چینلز اور ریڈیو سے سنائی دے گی۔اس حوالے سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر وابستگی بدلتی رہتی ہے تو پھر یہ ابن الوقتی ہے، کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں۔
میں نے ابھی تک اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے ادوار دیکھے ہیں، مجھے ان میں سے جزوی طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور 1993ءکے بعد میاں نواز شریف بھی سیاسی رہنمائوں سے مختلف اور بہترنظر آئے۔ میاں نواز شریف جب سیاست کے پالنے میں تھے اور جنرل ضیاء الحق کے فیورٹ تھے، میں نے ان کے لئے دل میں کوئی جگہ محسوس نہیںکی، چنانچہ اس دور میں ان کے حوالے سے میرا نقطہ نظر مثبت نہیں تھا۔ لیکن 1993ء کے میاں نواز شریف ایک بالغ نظر سیاست دان کے طور پر سامنے آئے، چنانچہ میں نے اپنے کالموں میں اس کا اظہار بھی کیا ان کے دور ِحکومت میں بھی اور اس وقت بھی جب وہ ابتلائوں میں سے گزر رہے تھے اور ابھی تک ان کیلئے مطلع پوری طرح صاف نظر نہیں آتا۔
اسکندر مرزا کے دور میں، میں شاید دسویں جماعت میں پڑھتا تھا، میں نے ایک خط اس دور کے ایک معتبر اخبار ’’ہلال پاکستان‘‘ میں اشاعت کیلئے بھیجا، جو مراسلات کے کالم میں شائع ہوا، میں نے اس میں اسکندر مرزا کے لتے لئے ہوئے تھے۔ ایوب خان کے دور میں، میں بی اے کا طالب علم تھا، ان کے خلاف مظاہروں میں بھرپور حصہ لیتا رہا اور پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، ان میں سے ایک لاٹھی میری کمر پر پڑی جس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں، جب مادرِ ملت فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن میں کھڑی ہوئیں میں ان کا کارکن تھا، اسی طرح بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی اپنے اختلافات کا اظہار کرتا رہا، انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، قوم کو آئین دیا، اور پورے عالم اسلام کے رہنمائوں کو پاکستان میں ایک پرچم تلے جمع کیا، لیکن ان کے دور میں جب سیاسی کارکنوں کےساتھ بہت شرمناک سلوک ہوا تو میں نے اس کے خلاف کالم لکھے اور مجھے ایف ایس ایف کے مسعود محمود کا پیغام ان لفظوں میں موصول ہوا’’تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے‘‘۔ میں اس دھمکی کے عملی جامہ پہنائے جانے سے محفوظ رہا کہ اس دھمکی کے سترہ دن بعد ان کی حکومت چلی گئی۔
اسی طرح میں نے جنرل ضیاء الحق کی ان عنایتوں سے بھی خود کو محفوظ رکھا جو ایک ملاقات کے دوران انہوں نے تین مرتبہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا ’’قاسمی صاحب کوئی خدمت بتائیں‘‘ اور میں نے تینوںبار ان کی اس پیشکش کا صرف شکریہ ادا کیا۔ ان کے دور میں، میں نے جو کالم لکھے ، وہ میری کتاب میں شامل ہیں جن کی وجہ سے میرے وہ دوست مجھ سے ناراض بھی ہوئے جو سمجھتے تھے کہ ضیاء الحق اسلام کا سپاہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف لکھے گئے میرے کالم میری کتاب ’’بارہ سنگھے‘‘ میں شامل ہیں۔ بارہ ،استعارہ اس طرح کہ بارہ اکتوبر کو انہوں نے ناجائز طور پر ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ آخر میں عمران خان کا ذکرِ خیر بھی کہ ان کی حکومت کے خلاف جو میں نے کالم لکھے وہ حال ہی کی بات ہے، انہوں نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا ’’عطاء الحق قاسمی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
ان تمام ادوار کے دوران میں ریڈیو، ٹی وی پر بین تھا، میری سیاسی ہمدردیاں ہر طرح کے دور میں میاں نواز شریف کے ساتھ رہیں، سو ابھی تک میں نے جو لکھا ہے اپنی تعریف کیلئے نہیں بلکہ صرف اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کیلئے لکھا ہے۔ میرے کچھ کرم فرما کبھی کبھار مجھ پر طعنہ زنی کرتے ہیں کہ تم کالم نگار ہومگر تمہاری ذہنی وابستگی ایک جماعت اور اس کےلیڈر سے ہے مگر میں ان کی بات مائنڈ نہیں کرتا کہ ان کی اپنی سیاسی وابستگی سے میں واقف ہوں۔ میرے خیال کے مطابق ہر سوچ سمجھ رکھنے والے شخص کی ایک سیاسی رائے ہونا چاہئے اگر ہم سب کو رد کرتے رہیں گے تو اس کے نتیجے میں صرف انتشار پیدا ہوگا اور پاکستان کی بنیادیں کبھی مستحکم نہیں ہوسکیں گی۔