کچھ پرانی یادیں!

امریکہ میں سرکاری طور پر گزرے ہوئے چار ہفتے اور اپنے طور پر گزارا ہوا ایک ہفتہ شدید ترین مصروفیات کے باوجود اچھا کیونکر گزرا، اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ہمارے امریکی میزبانوں نے ’’جبری خواندگی‘‘ سے قطع نظر ہمارے آرام وآسائش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ہمارا قیام امریکہ کے بہترین ہوٹلوں میں تھا جو مجھے ذاتی طور پر اپنی طبیعت کی سادگی کی وجہ سے اتنا پسند نہیں تھا اور ویسے بھی ہوٹل کا کرایہ اس یومیہ میں سے خود ادا کرنا پڑتا تھا جو امریکی حکومت ہم مہمانوں کو ادا کرتی تھی۔ ایک آسائش یہ بھی تھی کہ ہمیں یہاں بیمار ویمار ہونے میں کوئی تردد نہیں تھا، کیونکہ امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہمارے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ آپ کی ہیلتھ انشورنس ہے چنانچہ آپ میںسے جو معزز مہمان بیمار ہونا چاہے وہ تکلف سے کام نہ لے، اسے صرف ابتدائی پچیس ڈالر ادا کرنا پڑیں گے باقی رقم انشورنس والے ادا کریں گے البتہ آپ کو دو باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا ایک تو یہ کہ آپ اس تاریخ سے بیمار ہوں جس تاریخ سے آپ ہمارے مہمان ہیں کیونکہ سابقہ تاریخوں میں بیمار ہونے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے، نیز مہمان نوازی کی تاریخ گزرنے کےبعد بھی بیمار ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اگر آپ بیمار ہوں گے تو اپنی ’’گردن‘‘ پر ہوں گے، دوسری ہدایت یہ بھی تھی کہ بیماری کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں زیادہ مہنگی بیماری کا انتخاب چنداں مفید ہوگا کیونکہ انشورنس ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں اگر امریکہ میں لوگوں کی صحتیں بہتر نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ بہتر خوراک نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ انتہائی مہنگے علاج کے خوف سے بیمار نہیں ہوتے چنانچہ انشورنس کے کاغذات ہاتھ لگنے کے بعد مجھے ایک نئی فکر لاحق ہوگئی اور وہ یہ کہ اگر خدانخواستہ بیمار ہونے کا موقع نصیب نہ ہوا تو میں اس ہیلتھ پالیسی کے فوائد سے محروم رہ جائوں گا اور شومئی قسمت ملاحظہ فرمائیں کہ ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ساتھ وی آئی پیز ایسا سلوک یہ بھی کیا گیا تھا کہ ایک تعارفی کارڈ ہمیں دیا گیا جس پر درج تھا کہ حامل رقعہ ہذا امریکی حکومت کا مہمان ہے چنانچہ حامل رقعہ کے ہمت ہی نہیں پڑی، ایک خصوصی سلوک یہ بھی تھا کہ وطن واپسی کے وقت مقررہ وزن سے قریباً تیس پائونڈ اضافی سامان لے جانے کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی جس کا کرایہ پین ایم والوں نے ادا کرناتھا مگر میں اس سہولت سے بھی محروم رہا کیونکہ سفر کے دوران اپنا سامان بڑھانے کی بجائے میں مسلسل کم کرتا رہا، چنانچہ میں نے اپنی دو قیمتی جیکٹس جو خاصی وزنی تھیں عنایت خسروانہ سے کام لیتے ہوئے دو امریکی کارندوں کو عنایت کردیں، یہ جیکٹس ’’امریکہ‘‘ ہی سے آئی تھیں چنانچہ میں انہیں امریکہ ہی چھوڑ آیا۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

پاکستان سے امریکہ اور امریکہ سے پاکستان تک برٹش ایئرویز اور پین امریکن میں ہماری نشستیں امتیازی کلاس میں بک تھیں جہاں دیگر سہولتوں کے علاوہ مفت بادہ نوشی کا وافر مقدار میں انتظام تھا لیکن ساقی کا اصرار تھا کہ نظروں سے پینے کی بجائے براستہ پیالہ و ساغر پی جائے مگر افسوس کہ ساقی کی خواہش کا احترام نہ کر سکا چنانچہ ؎

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ ’’دل‘‘ نے بددعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

سو دوران سفر میرا ہاتھ جام تک نہ پہنچ سکا اور یوں میں اس سہولت سے محروم رہا تاہم کسی سہولت سے استفادہ نہ کرنے کا مطب یہ نہیں کہ خصوصی سہولتوں کا نشہ نہیں ہوتا، وی آئی پی ہونے کا اپنا نشہ ہے چنانچہ امریکہ میں قیام کے دوران یہ وہ نشہ تھا جسے صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک مسلسل مشقت کی ترشی بھی نہ اتار سکی۔

امریکہ میں قیام کو دلچسپ بنانے والی دوسری چیز میرے وہ ساتھی تھے، جن کا تعلق پندرہ مختلف ممالک سے تھا، ان میں سے فلپائن کے مانا روس، اردن کے محمد حلال شاہ، کویت کے احمد قلندر، ٹرکش سائپرس کے حسین اور سوڈان کے ڈاکٹر عراقی مسلمان تھے اور ان میں سے حلال شاہ کو چھوڑ کر باقی سب کے سب نوجوان تھے۔ انڈیا کا اینڈرین کیتھولک عیسائی تھا، یہ بھی نوجوان تھا اس کا تعلق مدراس سے تھا وہ مجھے ’’الحق‘‘ کہتا تھا۔ موصوف سر زمین امریکہ پر قدم رکھنے کے بعد سے کسی ایسی امریکی خاتون کی تلاش میں تھے جس سے شادی کرکے وہ گرین کارڈ حاصل کر لیں، دورے کے آخری دنوں میں وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے جب میں نے انہیں ایک ایسی امریکی ’’دوشیزہ‘‘ کے ساتھ دیکھا، جس کی عمرکم از کم پچپن برس تھی، یہ اتنے پرانے ماڈل کی ’’کار‘‘ تھی جس کے اسپیئر پارٹس ہی مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھے، ظاہر ہے شادی تو فوری طور پر نہیں ہو سکتی تھی اور اس میں زیادہ تاخیر بھی مناسب نہ تھی کیونکہ خاتون کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ رسک نہیں لیا جا سکتا تھا، بہرحال اللہ جانے ان کی شادی ہوئی کہ نہیں ہوئی، مگرموصوف کا ’’توا‘‘ بہت لگتا رہا۔ (جاری ہے)