چمچہ جات کی پھرتیاں

ابھی نئی حکومت عملی طور پر وجود میں بھی نہیں آئی تھی اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ چوبیس گھنٹوں کی دوری پر تھی تاہم چونکہ یہ منظرنامہ کافی واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا اس لیے چمچہ جات نے پھرتیاں دکھانا شروع کردیں۔ اتفاق دیکھیں، جس روز ایف آئی اے نے میاں شہباز شریف پر فرد جرم عائد کرنی تھی عین اسی روز وزیراعظم پاکستان کا الیکشن آ گیا۔ میاں شہباز شریف کی کامیابی میں کسی فارغ ترین آدمی کو بھی شک نہیں تھا، ایسے میں احتساب پر مامور سرکاری ادارے نے حالات کو بھانپتے ہوئے موقع کی مناسبت سے نہایت ہی سمجھدارانہ فیصلہ کیا اور ملزم کے وکیل کی عمرہ پر جانے کی درخواست پر عدالت کے استفسار پر مذکورہ وکیل کی طرف سے التوا کی درخواست پر آمنا وصدقنا کر کے لمبی تاریخ لے لی۔ یہ اس اقتدار میں آنے کیلئے دکھائی جانے والی بے تابیوں کے نتائج کی پہلی قسط ہے۔ اب اگلے چار چھ ماہ اسی قسم کی فلم چلے گی اور پھر غالباً سارے ملزمان نہایت ہی مزے سے باعزت بری ہو جائیں گے۔
اسی ایک روز، جب عمران خان وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو چکے تھے اور ابھی نئے وزیراعظم کا انتخاب اگلے روز ہونا تھا‘ اسی ایک لاوارث دن جب ملک اپنے چیف ایگزیکٹو کے بغیر حیرانی پریشانی کے عالم میں تھا، اسی دن چست و چالاک سرکاری افسران نے آنے والوں سے اپنی وفاداری کا پیشگی ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ منی لانڈرنگ کیس میں میاں شہباز شریف پر فرد جرم عائد کرنے کے بجائے ان کو بلا اعتراض اگلی تاریخ دلوانے میں مدد فراہم کی بلکہ اسی روز کسی قسم کی درخواست یا ایف آئی آر کے بغیر ہی سابق حکومت کے چھ کھڑپینچوں کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا۔ یہ اور بات کہ ان کی یہ حرکت عدالت نے ناکام بنا دی ؛ تاہم از خود قسم کی چمچہ گیری کی یہ مثال کوئی پہلی نہیں، ماضی میں بھی بیوروکریسی ایسے کارنامے سرانجام دیتی رہی ہے۔ گو کہ ملک عزیز میں رضاکار چاپلوس سرکاری افسروں کی یہ قبیل خاصی عام ہے اور ہر دور میں بلا معاوضہ دستیاب رہی ہے مگر مسلم لیگ (ن) کے دور میں تو رنگ ہی دوسرا ہوتا ہے۔
مجھے مبینہ ڈرامے باز، نااہل اور نالائق شہزاد اکبر سے رتی برابر ہمدردی نہیں۔ جن لوگوں نے اس ملک میں احتساب کو مذاق اور ٹھٹھہ بنا کر رکھ دیا ہے ان میں شہزاد اکبر کو پہلا نمبر دیا جانا چاہئے کہ موصوف کے چنیدہ قسم کے احتساب نے اور پھر اوپر سے نالائقی نے ملک میں احتساب کے عمل کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اس کا ازالہ ہی ممکن نہیں۔ نیب کے ایک معمولی سے پراسیکیوٹر سے مملکت میں احتساب کے سب سے طاقتور شخص کے مرتبے تک پہنچنے والے ان صاحب نے تین سال احتساب کے ڈرامے میں ہر روز نیا رنگ بھرا اور بڑی ہی کامیابی سے عمران خان کو احتساب کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پھر ایک روز اپنا پاندان اٹھا کر چل دیئے۔ بالکل اس فقیر کی مانند جسے شہر میں صبح پہلے شخص کے طور پر داخل ہونے کے عوض مملکت کی سربراہی مل گئی تھی‘ لیکن حلوے کے شوقین اس فقیر نے اس دوران حلوے سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ کچھ نہ کیا‘ اور ہمسایہ ملک کی طرف سے حملے پر جنگ کرنے کے بجائے آخری وقت تک حلوہ پکوا کر کھاتا رہا۔ جب دشمن کی فوج شہر میں داخل ہوگئی تو اپنی پرانی گدڑی پہنی، کشکول اٹھایا اور یہ کہہ کر چل دیا کہ حلوہ کھانے آیا تھا‘ وہ اچھی طرح سے سیر ہو کر کھا لیا‘ اب میں چلتا ہوں۔ پھر زور سے آواز لگائی: ہے کوئی سخی جو اللہ کے نام پر اس فقیر کو خیرات دے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ظفر مرزا، ندیم بابر، زلفی بخاری، تابش گوہر اور شہزاد اکبر اسی قسم کے تحفے تھے جنہوں نے موج میلہ کیا اور جب دیکھا کہ اپنا گھر پورا ہو گیا ہے اور انہوں نے قوم کو اور عمران خان کو اچھی طرح چونا لگا لیا ہے تو پھر وہ اپنا پاندان اٹھا کر چپکے سے کھسک گئے۔ احتساب کے علمبردار عمران خان کی یہ بہرحال اعلیٰ ظرفی ہی کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے کسی بھی کھسک جانے والے مشیر یا معاونِ خصوصی سے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے اس دوران دوائیوں والوں سے کتنے پیسے بٹورے، کورونا فنڈ سے کتنا مال غتربود کیا، پٹرول کے سکینڈل سے کتنے نوٹ چھاپے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کس کس پیدا گیر کو مسلط کیا‘ احتساب کے نام پر کتنے لوگوں کو نچوڑ کر اپنا دامن تر کیا اور کہاں کہاں سے عمران خان کے نام پر رگڑا لگایا۔ لوگ آئے، مال پانی بنایا اور خاموشی سے سٹک گئے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بات بہرحال قابل غور ہے کہ گیارہ تاریخ کو جبکہ ملک میں نہ وزیراعظم تھا، نہ کابینہ تھی اور نہ ہی حکومت تھی تو ان لوگوں کے نام کس نے اتنی ایمرجنسی میں سٹاپ لسٹ میں شامل کروائے؟ ان تین سیاسی لوگوں کے علاوہ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس، سابق وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور میاں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ والے کیس کی تفتیش کرنے والا ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب زون محمد رضوان بھی اس لسٹ میں شامل تھا۔
چمچہ گیروں کی پھرتیاں عروج پر ہیں اور شنید ہے کہ ہائی پروفائل شخصیات کے کیسز کی فائلیں بھی دائیں بائیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں اب یہ بات بالکل عام سی ہوچکی ہے کہ سرکاری ملازم ریاست کے بجائے حکمرانوں کے ملازم بننا زیادہ محفوظ اور فائدہ مند تصور کرتے ہیں۔ پنجاب میں عشروں سے حکمرانی کرنے والے شریفین کے وفادار سرکاری ملازمین کی تعداد سرکار سے وفادار سرکاری ملازمین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ان وفاداروں نے اپنے مالکان کی آمد سے قبل ہی اپنی وفاداری دکھانی شروع کر دی ہے۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی فرد جرم والی پیشی پر ملزمان کے وکیل کی جانب سے لمبی تاریخ لینے کی استدعا پر وکیل کی طرف سے فوری رضامندی میں ان کیسز کے مستقبل کے بارے میں جو اشارے پوشیدہ ہیں وہ اب اتنے پوشیدہ بھی نہیں رہے کہ عقل والوں کو ان کے آثار نظر نہ آئیں۔
اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے لیکن عنقریب کیا ہونے جا رہا ہے وہ صاف صاف نظرآ رہا ہے۔ بقول ہمارے شاہ جی کے پہلے پہل تو اپوزیشن فوری الیکشن کروانا چاہتی تھی پھر اچانک ہی اسے عدم اعتماد کی پڑگئی اور وہ فوری الیکشن کروا کر پانچ سالہ اقتدار کے مزے لینے کے بجائے چند ماہ کیلئے ہی سہی، لیکن حکومت لینے پر تیار ہوگئی حالانکہ نہ تو ملک کے معاشی حالات اس قابل تھے کہ اس بدترین صورتحال میں اس کانٹوں بھرے تاج کو سر پر سجایا جاتا اور نہ ہی عمران خان کو قبل از وقت فارغ کرنا سیاسی طور کوئی عقلمندی کا سودا تھا‘ تو پھر آخر کیا وجہ تھی کہ سب ملزمان لشٹم پشٹم اکٹھے ہوکر چار چھ ماہ کی حکومت کیلئے بے تاب ہوگئے؟ پھر شاہ جی خود ہی کہنے لگے: دراصل یہ سب مل کر ان چار چھ ماہ میں مقصود چپڑاسی، فالودے والے اور پاپڑ والوں کی بلااجازت اورزبردستی بھیجی گئی ٹی ٹیوں کا ریکارڈ سنوارنے، اپنی داغدار سلیٹ صاف کرنے اور اپنے دامن پر لگے کرپشن کے داغ دھونے آئے ہیں۔ جیسے ہی یہ معاملات ٹھیک ہو گئے، آپ ان میثاق جمہوریت والے حصہ داروں کو آپس میں دست و گریبان ہوتا دیکھئے گا۔ ہمارے ہاں کی روایت کے عین مطابق ممکن ہے میرے کچھ قارئین سابق دور حکومت میں کی گئی ایسی ہی پھرتیوں کی مثال دے کر ان حالیہ پھرتیوں کو جواز بنائیں‘ لیکن ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بنتی بلکہ ایسی غلطی دراصل دوسری غلطی کہلاتی ہے۔