سٹینفورڈ مارش میلو تھیوری اور چودھری کی نصیحت

مملکت خداداد پاکستان میں عوامی سطح پر سب سے مقبول چیز سیاست ہے۔ ہم ہر چیز پر سیاست کرتے ہیں اور ہر بات کے اندر سے سیاست نکالتے ہیں۔ عالمی سیاست سے لے کر علاقائی سیاست تک ہر شے ہماری دسترس میں ہے۔
یہاں بندہ اور کوئی کام کرے یا نہ کرے، لیکن سیاست پر اپنی دسترس کی خوش فہمی کے طفیل ہمہ وقت سیاست پر اپنے ہاتھ صاف کرنے پرتلا رہتا ہے۔ اجتماعی حالت یہ ہے کہ قوم کو اپنی معاشی بدحالی، اقتصادی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کے پیچھے اپنی غلطیوں یا نالائقیوں کے بجائے عالم کفر کی عمومی اور امریکہ کی خصوصی ‘کرم نوازی‘ نظرآتی ہے۔ اس بنیاد پر ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکنان ملک میں ہر قسم کی بربادی کا ملبہ اپنے لیڈروں پر ڈالنے کے بجائے عالم کفرکی سازشوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ہماری تمام بڑی اور قومی سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی لیڈرشپ کو دودھ کی دھلی ہوئی قرار دیتے ہیں؛ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے۔
فی الوقت دنیا بھرکو روس اور یوکرین کے تنازع کی پڑی ہوئی ہے۔ تیل کی عالمی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور قرائن و آثار یہی بتاتے ہیں کہ تیل کی قیمت ایک سو بیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی۔ ایسی صورت میں ہمارے ہاں پٹرول کی قیمت دو سو روپے فی لٹر تک پہنچ گئی تو حیرانی کی بات نہیں ہوگی‘ لیکن ایسے میں بھی ہمیں صرف یہ پڑی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کیا کیا بنے گا؟ جہانگیر ترین عمران خان کو چھوڑے گا کہ نہیں؟ اگر اس بار بھی جہانگیر ترین کو استعمال کرلیا تو اس ٹشو پیپر کو وہ کون سی ڈسٹ بن میں پھینکے گا؟ آئندہ الیکشن میں ترین گروپ کا کوئی وجود بھی ہوگا یا وہ تتربتر ہو چکا ہوگا؟ ایم کیو ایم اپنی روایتی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت کو بیچ منجدھار چھوڑنے کا فریضہ کب سرانجام دے گی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر پاکستانی سیاست سے شاکی اور ناراض میاں نواز شریف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے پنجاب میں بوجھل دل سے چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے پر راضی ہو بھی گئے توکیا وہ پنجاب کی تاریخ کے سب سے کامیاب، سمجھدار، ہوشیار اور ڈائنامک وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ (میری قارئین سے درخواست ہے کہ وہ عثمان بزدار صاحب کے بارے میں کی جانے والی میری درج بالا تعریفوں کو دل پر نہ لیں۔ پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا)۔ عدم اعتماد گوکہ ایک آئینی سہولت اور جمہوری روایت ہے اور اسے اصولی حوالے سے کسی طور بھی رد نہیں کیا جا سکتا‘ مگر جس فرسٹریشن کے ساتھ آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن یہ باجا بجا رہے ہیں‘ وہ اصولی کم اوراقتدار کی خواہش کے تابع زیادہ نظر آرہا ہے۔ ایسے میں نہ اخلاقی اقدار کی پاسداری ہے اور نہ ہی جمہوری روایات کی پیروی۔ انگریزی میں ایسی صورتحال کیلئے دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں “By hook or by crook” یعنی جیسے بھی بن پڑے کام نکلوانا۔ کسی بھی طریقے سے خواہ تدبیر سے یا کسی دھوکے سے اپنا الّو سیدھا کرنا۔
بقول چودھری بھکن موجودہ حکومت کی نااہلی، بدانتظامی اور خاص طور پر مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی اپنی جگہ، مگر حالیہ شوروغوغا کسی جمہوری کلچر کی سربلندی سے زیادہ ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے چوروں کے اکٹھ جیسا معاملہ نظر آتا ہے۔ کل چودھری بھکن ملا تو کہنے لگا: مولانا فضل الرحمن کے دو مسئلے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ عمران خان سے ذاتی عناد رکھتے ہیں‘ اور عمران خان کی حکومت ختم کرنے کیلئے کسی سے بھی اتحاد کر سکتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ ان کی اقتدار سے دوری ہے جو انہوں نے گزشتہ کئی عشروں سے نہیں دیکھی تھی۔ رہ گئے زرداری اور میاں شہباز شریف تو ان کے خلاف کرپشن کے مقدموں میں گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت نے جس طرح پیروی پرزور دیا ہے اس حساب سے ہردو حضرات اپنی گردن کے گرد تنگ پڑتے ہوئے قانونی گھیرے سے اپنی جان چھڑوانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
ذاتی مفادات کو زک پہنچنے کے نتیجے میں مفاد پرست عناصرکا اجتماع اور جمہوریت کے نام پر حالیہ تحریک عدم اعتماد کے اس ہنگامہ ہائے داروگیر میں ہمارے ملک کے سیاسی منظرنامے میں کسی حد تک مروت اور برداشت کی روایات کی پاسداری کرنے والے چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو لوگوں نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور مسلم لیگ (ق) اس مینڈیٹ کا احترام کرتی ہے‘ مدت پوری کرنا ہر حکومت کا جمہوری حق ہے۔ آپ یقین کریں‘ مجھے نہ تو نالائق حکمرانوں سے ہمدردی ہے اورنہ ہی اپوزیشن سے کوئی پرخاش ہے‘ لیکن ایسے دنوں میں جب اخلاق، مروت، اصول اور روایات کا جنازہ نکل رہا ہو‘ ایسی بات دل کو تسلی دیتی ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو روایات اور وعدوں کو نبھانا جانتے ہیں۔
چودھری بھکن جب کبھی کہیں سے کوئی سمجھداری والی بات سن کر آئے یا کسی محفل سے علم و حکمت کا کوئی واقعہ سن کرآئے توپھر وہ واقعہ سنائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا تم نے کبھی مارش میلو کا نام سنا ہے؟ میں نے ہنس کرکہا: چودھری! میں نے نہ صرف اس کا نام سنا ہے بلکہ کھائی بھی ہے۔ یہ نرم سی اسفنج نما بچوں کی ٹافی ٹائپ چیز ہوتی ہے۔ تم اسے نہ کینڈی کہہ سکتے ہو اور نہ ہی ٹافی۔ چودھری اپنا سوال بھول کر مجھ سے پوچھنے لگا: کیسی ہوتی ہے؟ مزیدار ہے یا بس اینویں ای گزارہ ہے؟ میں نے کہا: چودھری! تو مارش میلو کے ذائقے کو چھوڑ‘ اصل بات بتا جو تُو کہنے والا تھا۔
چودھری کہنے لگا: دراصل ہم میں بحیثیت قوم صبر، حوصلہ اور تحمل نامی کوئی شے موجود نہیں۔ اس مسئلے پر ایک امریکی یونیورسٹی میں باقاعدہ تحقیق ہو چکی ہے۔ اس تحقیق اور سٹڈی سے جو نتائج اخذ کئے گئے وہ مارش میلو تھیوری کہلاتی ہے۔ پھر چودھری نے جیب سے کاغذ نکالا اور کہنے لگا: میں نے اس کے نوٹس بنا لئے تھے۔ اب اس عمر میں ایسی نئی نئی باتیں، مشکل نام اور سال وغیرہ یاد نہیں رہتے۔ یہ 1970 کے لگ بھگ یونیورسٹی آف سٹینفورڈ‘ امریکہ میں نفسیات کے پروفیسر والٹر مچل کے ایک تجربے کی بنیاد پر اخذ کردہ تھیوری ہے۔ یہ لمبی کہانی ہے مگر مختصراً یہ کہ پروفیسر والٹر نے بنگ نرسری سکول آف سٹینفورڈ یونیورسٹی کے بتیس بچوں کو ایک ایک مارش میلو دی اور کہا کہ اگر وہ بیس منٹ تک اس کو نہیں کھائیں گے تو وہ انہیں اسی طرح کی ایک اور مارش میلو دے گا‘ اگر انہوں نے یہ کھالی تو انہیں دوسری نہیں ملے گی۔
بہت سے بچوں نے دوسری مارش میلو کا انتظار کرنے کے بجائے ایک کو کھانا پسند کیا اور کچھ بچوں نے صبروتحمل سے کام لیا اور دوسری مارش میلو حاصل کرلی۔ پھر 1988ء میں اٹھارہ سال بعد ان بچوں کا‘ جو اب بڑے ہو چکے تھے‘ فالواپ کیا گیا تو پتا چلا کہ جن بچوں نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا تھا‘ وہ بے صبرے اور جلد باز بچوں کی نسبت تعلیم میں بھی بہتر نکلے اور پیشے کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ بقول ڈاکٹر والٹر جو بچے بیس منٹ تک اپنی خواہش پر قابو نہیں پا سکتے وہ عملی زندگی میں بھی اسی رویے کے تحت بیشمار مواقع اور کامیابیاں ضائع کردیتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم انہی جلد باز، بے صبرے اور اتاولے بچوں کی طرح ہیں اور تبھی آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا: حیران ہوکر میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ کدی پڑھ وی لیا کرو۔ میں نے تابعداری سے سر ہلا دیا۔