آئین پاکستان اور اس میں دی گئی ضمانتوں کا حال

جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہو تو ایسے میں ایک پنجابی محاورہ ہے کہ ”بہرے کو اپنے کانوں کی پڑی ہوتی ہے‘‘۔ سارے یورپ اور مغرب کو اس وقت یوکرین کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ انسانی اقدار کے وہی علمبردار ہیں جنہیں عراق‘ افغانستان‘ لیبیا‘ شام‘ یمن‘ فلسطین اور کشمیر میں جاری انسانی المیے پر اچھے طریقے سے جعلی آنسو بھی بہانے نہیں آتے‘ لیکن انہیں نیو ورلڈ کے تحت قائم ہونے والی نئی دنیا میں پہلی بار کسی عیسائی یورپی ملک میں انسانی المیے سے واسطہ پڑا تو سب نام نہاد مہذب ممالک کی بانگیں نکل گئی ہیں۔ فی الوقت سارے مغرب کو یوکرین کی پڑی ہوئی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کو سب سے بڑھ کر عمران خان کی پڑی ہوئی ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ خزاں کو رخصت ہونا چاہیے‘ خواہ بہار آئے یا نہ آئے یعنی انہیں بہار یا بہتری سے قطعاً کوئی غرض نہیں‘ بس عمران خان کو رخصت ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں بھلے عمران خان کی جگہ کوئی بھی آ جائے اور حالات بے شک پہلے سے بھی بدتر ہو جائیں انہیں اس کی رتی برابر پروا نہیں‘ بس عمران خان کو چلتا کر دیا جائے۔ زرداری اینڈ کمپنی اور میاں برادرز کو تحریک عدم اعتماد کی پڑی ہوئی ہے۔ اس کیلئے میاں شہباز شریف چودہ سالہ قطع تعلق اور اصولی اختلافات پر مٹی ڈال کر چوہدری پرویز الٰہی کے دولت خانے پر حاضری بھی لگوا چکے ہیں‘ غرض اپوزیشن کو عدم اعتماد کی پڑی ہوئی ہے۔ کوئی لانگ مارچ کو لگا ہوا ہے اور کوئی حکومتی پارٹی کے ارکان توڑنے کی مشقت میں مبتلا ہے۔
جہاں دنیا بھر میں افراتفری اور مارا ماری پھیلی ہوئی ہے ملتان کون سا مریخ پر واقع ہے‘ ملتان میں بھی یہی حال ہے اور ادھر ایک ایم این اے کو نیب کی گرفت میں آئے ہوئے اپنے ایک کاروباری شراکت دار کو جیل میں سہولیات کی فراہمی کی پڑی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ ایم این اے خود بھی کافی زورآور اور تگڑا ہے‘ اوپر سے اس کمبخت تحریک عدم اعتماد نے حکومت کا اعتماد برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ لہٰذا ان حالات میں مذکورہ ایم این اے اپنے بزنس پارٹنر کی خاطر مدارت کیلئے زیادہ زوروشور سے کوشاں ہے۔ ایسی صورتحال کے لیے بھی کنویں میں گرے ہوئے گدھے کے بارے میں ایک پنجابی کہاوت ہے لیکن اسے رہنے ہی دیں۔
یہ بزنس پارٹنر فی الوقت ملتان کی ڈسٹرکٹ جیل میں نیب کے توسط سے سرکاری مہمان ہے۔ اس مہمان پر ملتان میں ہاؤسنگ کالونیوں اور زمینوں کی آڑ میں عوام کے کروڑوں روپے غتربود کرنے کے الزامات ہیں۔ اس لینڈ مافیا ڈان کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ملتان شہر سے ایک دھانسو قسم کا ایم این اے اس کا کاروباری شراکت دار ہے‘ اور اس کو بزنس میں یعنی ہاؤسنگ کالونیوں والے معاملات میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کرنے اور آسانیاں فراہم کرنے میں معاون تھا‘ لیکن بدقسمتی سے عوام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ہونے والے فراڈ کے باعث یہ معاملہ احتساب والوں کے پاس چلا گیا اور کام خراب ہو گیا۔
ملتان کی ڈسٹرکٹ جیل میں آج کل مزے لگے ہوئے ہیں۔ ویسے تو پیسوں والے قیدی ملک عزیز کی ہر جیل میں مزے کر رہے ہیں بلکہ کئی زورداروں نے تو گھر کو جیل قرار دلوا کر مزے لینے کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پاکستان کا آئین سب شہریوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے مگر ممکن ہے کہ یہ برابری آزاد شہریوں کے بارے میں ہو کیونکہ جیل میں رہائش پذیر اس ملک کے تمام قیدی تو بہرحال برابر کے حقوق کے حامل ہرگز نہیں ہیں۔ شرجیل میمن جیل گئے تو پتلی گلی سے نکل کر ہسپتال چلے گئے۔ جیل کے قیدی اگر بیمار ہوں تو جیل کے ہسپتال میں جاتے ہیں مگر موصوف پرائیویٹ ہسپتال چلے گئے اور پرائیویٹ بھی ایسا جہاں فائیو سٹار ہوٹل والی ساری سہولیات مع فائیو سٹار لوازمات میسر تھیں۔ یہ اور بات کہ یہ لوازمات بعد ازاں خالص شہد ثابت ہوئے۔ کیا خوش قسمت لوگ ہیں کہ انہیں دورانِ قید بھی خاص شہد مل جاتا ہے دوسری طرف ہمارے کئی آزاد دوست بصد کوشش بھی واقعتاً اصلی شہد کا بندوبست نہیں کر پاتے۔
سید خورشید شاہ نے بظاہر کافی عرصہ احتساب کے حوالے سے قید بھگتی لیکن اس سارے عرصے میں وہ سکھر کے ایک ہسپتال میں وی آئی پی کے طور پر براجمان رہے اور آخر یہ قید کی تہمت ختم ہوئی اور وہ ضمانت پر باہر آ گئے۔ اس سے انہیں یہ نقصان ضرورہواکہ اب پلے سے خرچہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ادھر آغا سراج درانی کو دیکھ لیں‘ گھر کو جیل قرار دے دیا گیا ہے اور قیدی اپنے گھر میں مزے کر رہا ہے کیا یہ سہولت کسی مرغی چور کو میسر ہو سکتی ہے؟ کیا جیب کاٹ کر مبلغ پانچ سو روپے نکالنے والے جیب کترے کو آئین کے تحت برابری کی ضمانت یہ سہولت دلوا سکتی ہے؟
قارئین! معاف کیجئے گا میں ملتان سے نکل کر سکھر اور کراچی چلا گیا؛ تاہم اس سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ میرا یہ کالم گو کہ ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے شروع ہوا تھا مگر کراچی اور سکھر کے واقعات نے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ سارے پاکستان میں یہی حال چل رہا ہے اور ہر جیل میں‘ ہر شہر میں‘ ہر تھانے میں اور ہر کچہری میں لوگ پیسے سے اپنی اپنی مطلوبہ سہولیات خرید رہے ہیں۔ اصل والی قید‘ جسے بعض اوقات بامشقت کا تڑکا بھی لگ جاتا ہے‘ صرف ان لوگوں کا مقدر ہے جو اپنے لئے آسانیاں‘ سہولتیں اور عیش خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ جو یہ سب کچھ خرید سکتے ہیں ان کیلئے منڈی لگی ہوئی ہے اور وہ اس منڈی میں سے اپنی مرضی کی شے خرید رہے ہیں۔
ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں بند اس قیدی کا قصہ بڑا پُراسرار ہے‘ غالباً یہ سترہ ستمبر 2020ء کی بات ہے‘ ممکن ہے ایک آدھ دن آگے پیچھے ہو جائے‘ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ملتان آئے ہوئے تھے۔ سرکٹ ہاؤس ملتان میں ایک جلسے کا بھی بندوبست تھا۔ اس جلسے میں ملتان کے اس مذکورہ ایم این اے کا بھائی‘ جو پی ٹی آئی کا تنظیمی عہدیدار بھی ہے‘ اپنے بڑے بھائی کی شہر میں غیرموجودگی کے عوضانے میں سٹیج پر بیٹھنے پر مصر تھا۔ منتظمین نے کہا کہ سٹیج پر پڑی ہوئی کرسیاں آپ کی خاندانی جائیداد نہیں کہ آپ اسے خاندان کے درمیان باہمی افہام و تفہیم سے تقسیم کریں۔ انہوں نے موصوف کو اس کے بھائی کی جگہ سٹیج پر نہ بیٹھنے دیا۔ اس پر خفا ہو کر اس نے وہاں موجود اپنے حامیوں کے ساتھ جوابی طور پر احتجاج شروع کر دیا کہ سٹیج پر لگے ہوئے پینا فلیکس پر فلاں لیڈر کی تصویر نہیں ہے اور خاصی بدمزگی پھیلائی۔ منتظمین نے فنکشن تو کسی نہ کسی طریقے سے کر لیا لیکن حساب برابر کرنا باقی تھا۔
عثمان بزدار شکل سے جتنے بھولے (ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ میں کچھ اور لکھنا چاہتا تھا لیکن احتیاطًا یہ لفظ لکھ رہا ہوں) نظر آتے ہیں اتنے ہیں نہیں‘ وہ جلسہ ختم ہوتے ہی دو قدم پر موجود ڈسٹرکٹ جیل گئے اور جا کر سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کر دیا۔ اس سپرنٹنڈنٹ کو ہنگامہ آرائی کرنے والے عہدیدار کے ایم این اے بھائی نے سفارش سے لگوایا ہوا تھا۔ بزدار صاحب نے چند منٹ بعد ہی اپنا حساب برابر کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں کافی سارے احتساب زدگان بند ہیں۔ جیل والوں کے بھی مزے ہیں اور احتساب زدگان کے بھی مزے ہیں۔ شنید ہے کہ جیل کی تعیناتیاں ان موج میلہ کرنے والوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ گزشتہ دو سال میں چوتھا سپرنٹنڈنٹ تبدیل ہوا ہے لیکن یہ صرف ملتان کا نہیں سارے پاکستان کا یہی حال ہے۔ اور آئین پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہر شہری برابر کے حقوق کا حق دار ہے۔ اب آئین کے بارے میں کچھ کہیں تو بندے کی خیر نہیں۔ سمجھ نہیں آتی بندہ کیا کرے اور کہاں جائے۔