قصہ دو صاحبِ ضمیر ملتانی ایم این ایز کا … (2)

مجھے گمان ہی نہیں یقین ہے کہ خان صاحب جس طرح اقتدار کی گاڑی پر سوار ہونے کے لیے بیتاب تھے اس کے پیش نظر انہوں نے تب اپنے متوقع اتحادیوں کی ہر بات من و عن‘ بلا چوں و چراں قبول کر لی۔ وعدے کرنا بہت آسان کام ہے جبکہ اسے نبھانا از حد مشکل۔ تب انہوں نے ق لیگ، بی اے پی اور خاص طور پر ایم کیو ایم کے سارے مطالبات اسی طرح تسلیم کر لیے ہوں گے جس طرح ہم اپنا موبائل فون اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کمپنی کی طرف سے کئی صفحات پر مشتمل لمبی چوڑی بھیجی گئی Terms & Conditions کو بغیر پڑھے ان کے آخر میں لکھے ہوئے I Agreed کو ٹک کردیتے ہیں۔ گمان ہے کہ جلد از جلد وزیر اعظم بننے کیلئے خان صاحب نے تب بہت سی ایسی باتیں بھی مان لی ہوں گی جو حالتِ اضطرار کے علاوہ کوئی سمجھدار بندہ تسلیم نہ کرتا۔
اب اگر مشکل وقت میں ان کے اتحادی ان کے ساتھ چوہے بلی والا کھیل کھیل رہے ہیں تو یہ سیاست کا لازمہ ہے؛ تاہم زیادہ خرابی اس سے پیدا ہوئی کہ خان صاحب کے پاس بندوں کو ناراض کرنے والوں کی تو ایک فوج ظفر موج موجود ہے لیکن معاملات کو سلجھانے، آگ پر پانی ڈالنے اور روٹھے ہوئوں کو منانے والا شاید ایک بندہ بھی نہیں ہے۔ آپ یقین کریں میں یہ بات نہایت معتبر معلومات کی بنا پر لکھ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی میں بظاہر نسبتاً ٹھنڈے ٹھار اور صلح جو نظر آنے والے شاہ محمود قریشی تک کا یہ حال ہے کہ ان کے بعض قریبی ساتھی بھی ان کے بارے میں دل میں خاصے منفی خیالات رکھتے ہیں‘ اور محض مطلب براری کیلئے ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ان کو موقع ملے تو وہ قریشی صاحب کو چھوڑ کر غائب ہونے میں ایک لمحہ نہ لگائیں۔ پارٹی کی لیڈرشپ سے لے کر ورکر لیول تک ان کے بارے میں اس بات پر اجماعِ امت پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی سے مخلص نہیں۔
ایسے برے وقت میں پارٹی سے کھسکنے والوں کو روکنے پر جب شیخ رشید، فواد چوہدری اور شہباز گل جیسے دوست مامور ہوں تو خان صاحب کو دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں خان صاحب سے عرض کی تھی کہ براہ مہربانی اس مملکت کو ”ریاستِ مدینہ‘‘ جیسا بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وہ لب و لہجہ اختیار کریں جو اصلی ریاستِ مدینہ کے بانی‘ آقائے مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد امریکہ سے درآمد کردہ پی ایچ ڈی تک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکی یونیورسٹی میں تعلیم دینے کا تجربہ رکھنے والے شہباز گل صاحب نے ڈاکٹر رمیش کمار کے لیے جو زبان استعمال کی اس نے بدکلامی کے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ جو لفظ اخبار میں نہیں چھپ سکتا‘ اسے ایک منٹ کے دوران کم از کم چار بار استعمال کرتے تو میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ اس طرح کی انتہائی غیر اخلاقی زبان استعمال کر کے روٹھنے والوں کو تو خیر کیا منائیں گے آپ تو مانے ہولے لوگوں کو بھی ناراض کر دیں گے۔
شکر ہے اس وقت ساتھ کوئی بچہ نہیں بیٹھا ہوا تھا وگرنہ وہ اس لفظ کا مفہوم پوچھ لیتا تو میں کیا بتاتا کہ اس کا تہہ در تہہ مفہوم کہاں تک جاتا ہے۔ یہ لفظ تو ذو معنی بھی نہیں سیدھی سیدھی گالی ہے جسے کوئی شریف آدمی چار معزز لوگوں کے درمیان استعمال نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ برا وقت آیا تو شہباز گل صاحب اپنا بریف کیس اٹھا کو واپس امریکی ریاست الی نوائے چلے جائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے باقی معاونین خصوصی اور مشیر غائب ہو چکے ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑ کر سندھ ہائوس میں بیٹھنے والوں کے لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کے ضمیر پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعتاً صاحبِ ضمیر ہیں اور عوام کے اپنی ذات پر اعتماد کا یقین رکھتے ہیں تو پھر انہیں چاہئے کہ پہلے استعفیٰ دیں، پھر دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی آئیں اور عمران خان کی حکومت کے خلاف ضمیر کے شیرے میں تربتر اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ سب سے زیادہ بے شرمی کے مرتکب تو وہ لوگ ہیں جن کا نہ کوئی حلقہ ہے اور نہ کوئی ووٹر۔ وہ صرف اور صرف پارٹی کی نامزدگی پر مخصوص نشست پر رکن منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں اور پھر اپنا ووٹ اور ضمیر دونوں بیچ کر مال کھرا کر لیتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف حالیہ دنوں میں مہنگائی کے بڑھنے کا بہت شور مچا۔ کم از کم اس مہنگائی سے ان ارکان اسمبلی کو تو ضرور فائدہ ہوا ہے کہ پہلے ان کا ووٹ ایک ڈیڑھ کروڑ میں بکتا تھا اب دس بارہ کروڑ روپے مل رہے ہیں۔
لیکن جو لوگ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر جیت کر آئے ہیں اور ان کو لوگوں نے پی ٹی آئی کے نام پر ووٹ دیئے ہیں۔ بھلا وہ عوام کے حاصل کردہ ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد ان کے ووٹوں کا سودا کرکے اس کے پیسے اپنی جیب میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ ملتان کے قومی حلقہ این اے 159 سے پی ٹی آئی کی طرف سے منتخب ہونے والے رانا قاسم نون بھلا پی ٹی آئی کے ووٹروں کے اعتماد کو کس طرح بیچ سکتے ہیں؟ جلال پور پیر والا سے ملنے والے ووٹوں کو سندھ ہائوس میں لگی منڈی میں کس طرح فروخت کیا جا سکتا ہے؟ تاہم ایک حیرت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دوسری پارٹی ٹکٹ دیتے وقت کن جمہوری اقدار اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مخلص لوگوں پر ترجیح دیتی ہے؟ موصوف کا ضمیر غالباً چوتھی یا پانچویں بار جاگا ہے۔ وہ 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کی طرف سے ملتان کے حلقہ این اے 153 سے قومی اور پی پی 205 سے پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے۔ قومی سیٹ سے ہارنے اور صوبائی سیٹ سے جیتنے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کی کابینہ میں وزارت کے مزے لیتے رہے۔ پھر ضمیر جاگ پڑا اور 2008ء میں اسی حلقہ سے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑے اور ہار گئے۔ اس شکست نے ان کے ضمیر کو دوسری بار جھنجھوڑا جس سے وہ پھر جاگ پڑا اور جاگتے ہی پیپلز پارٹی میں گھس گیا۔ 2013ء کا الیکشن پیپلزپارٹی سے لڑے اور اس شکست نے ضمیر کو تیسری بار ہلا ہلا کر جگایا تو موصوف پی ٹی آئی میں چلے گئے؛ تاہم جلد ہی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔ 2016ء میں ضمنی الیکشن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جیت کر 2018ء کے الیکشن سے چند ماہ پہلے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر ضمیر کی پانچویں آواز پر پی ٹی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور اب اچانک ضمیر نے چھٹی بار کچوکا مارا ہے تو سندھ ہائوس میں جا براجمان ہوئے۔ شنید ہے اس بار ضمیر کو جگانے کیلئے جس تیل سے مالش کی گئی ہے وہ سندھ سے سید یوسف رضا کی وساطت سے آیا‘ مگر ضمیر کا کیا ہے؟ ممکن ہے چھٹی بار انہیں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ لینے پر مجبور کردے اور حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ (ن) ٹکٹ دے بھی دے۔
کہنے کو تو یہ صرف دو ملتانی صاحبِ ضمیر ارکان قومی اسمبلی کا ذکر تھا‘ لیکن یہ دراصل حالیہ بے ضمیروں کی ساری لاٹ کے بارے میں تھا جو شہروں کے ناموں سے قطع نظر اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذکورہ دونوں افراد تو اس بے ضمیر بٹالین کے محض دو رضاکار ہیں اور اس دیگ کے دو چاول ہیں۔ اگر نئے پاکستان کے دعویدار عمران خان 2018 میں ان لوٹوں کو لینے سے انکار کرتے تو شاید اس روایت بد کی کچھ حوصلہ شکنی ہوتی مگر اب خان صاحب بھی حسب معمول وہی کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے بویا تھا۔ کم از کم انہیں تو اس پر واویلا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (ختم)