سپریم کورٹ کا ملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ کر لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور کی سربراہی میں نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی بنادی۔

سپریم کورٹ نے نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے قیام کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا۔

اعلامیے کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے رکن ہیں۔

ہائی کورٹس اور وفاقی شریعت کورٹ کے ججز بھی نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی آرٹیفشل انٹیلیجنس سمیت عدالتی نظام میں جدت پر نیشنل پلان مرتب کرے گی، نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی عدالتی نظام میں ڈیجیٹل جدت لائے گی، کمیٹی انصاف کی بہتری اور کیسز کے طریقۂ کار کے لیے موبائل ایپ بنائے گی۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق کمیٹی عدالتی نظام اور تحقیق میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس متعارف کرائے گی، جسٹس منصور علی شاہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو ٹیکنالوجی میں جدت اپنانی چاہیے، جسٹس منصور کا کہنا ہے کہ دنیا صنعتی انقلاب سے ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ چکی۔

اعلامیے کے مطابق یہی وقت ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیتی پروگرامز سے روشناس کرایا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا ہے کہ شعبۂ انصاف کی ڈیجیٹلائزیشن اس تبدیلی کا آغاز ہے جس کا قانونی نظام میں تصور کرتا ہوں، وقت کے ساتھ ڈیجیٹل صلاحیتوں کو بڑھانے اور انصاف تک رسائی مزید بہتر بنانے پر یقین رکھتا ہوں، ملک کے لیے ایک شفاف اور مؤثر قانونی عمل یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہوں۔

اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس منصور نے لاہور ہائی کورٹ کے اپنے دور میں ریسورس سینٹر اور مخصوص آٹومیشن پروجیکٹ شروع کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے شروع کردہ نظام سے لاہور ہائی کورٹ میں کیس فلو مینجمنٹ سسٹم بنا جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے سندھ ہائی کورٹ کو آئی ٹی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

اعلامیے کے مطابق نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی ہے، قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں اور قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا سیکریٹریٹ قانون و انصاف کمیشن میں ہے۔