انہونی تو پھر انہونی ہی ہوتی ہے

گزشتہ پندرہ بیس دنوں سے تو یہی لگ رہا ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کا تعلق شجاعباد اور جلال پور پیروالہ سے ہے۔ اس قسم کا سیاسی ٹیلنٹ صرف اور صرف شجاعباد اور جلال پور پیروالہ میں ہی پایا جاتا ہے کہ بیک وقت دو یا دو سے زیادہ فریقوں کو مسلسل سیاسی غچہ دیا جائے اور اس غچے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو کہ کسی فریق کو آخر دم تک پتا نہ چلے کہ اس کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔ ملتان کی ان دونوں نواحی تحصیلوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کا ووٹر امیدوار کے ساتھ وہی کرتا ہے جوامیدوار نے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
یہ سو فیصد سچا واقعہ ہے کہ امیدوار نے پی ٹی آئی کولارا لگا رکھا تھاکہ میں ابھی بنی گالا آرہا ہوں۔ لوگ اس امیدوار کے بنی گالا میں منتظر تھے اور امیدوار ماڈل ٹائون سے ٹکٹ لے کر برآمد ہوا۔ اگلی بار ماڈل ٹائون والے ٹکٹ لے کر بیٹھے رہے اور موصوف بنی گالا سے کامیاب و کامران لوٹے۔ جب مسلم لیگ (ن) پر برا وقت آیا توایک نہایت ہی مخلص سیاستدان نے مسلم لیگ (ق) کیلئے بندے گھیرنے کا فریضہ سرانجام دینا شروع کردیا اور اچھے خاصے شریف لوگوں کو ماموں بنا کر مسلم لیگ (ق) میں بیچ دیا۔ بکنے والے ظاہر ہے شجاعباد یا جلالپور پیروالہ سے نہیں تھے ورنہ بکنے کے بجائے بیچنے پر لگے ہوتے لہٰذا وہ موصوف کی سیاسی چکربازیوں میں آگئے اور گھر سے بے گھر ہوگئے۔ ان سب کو تو اس سیاستدان نے ق لیگ کی ٹرین پر چڑھا دیا اور خود دو چار سٹیشن بعد اترکر مسلم لیگ (ن۹ کی بس پر چڑھ گیا۔ اب بندے گھیر کرلے جانے والا مسلم لیگ (ن) میں مزے کررہا ہے ا ور اس کے لارے پر یقین کرنے والے ابھی تک بے گھر ہیں اور یوسفِ بے کارواں ہیں۔ ایک متاثرہ شخص سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ ہمارے پاس بہرحال ایسی صلاحیت نہیں تھی کہ دوبارہ اپنی جگہ بناتے، خداداد صلاحیت صرف اور صرف شجاعباد اور جلالپور پیروالہ والوں میں ہی پائی جاتی ہے کہ دوسروں کوتو خواروخستہ کر دیں اور خود مزے کریں۔
ہر فرعون کیلئے رب العزت نے کسی نہ کسی موسیٰ کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے۔ سو ان دو تحصیلوں کے سیاستدانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں انہی جیسے ووٹروں کا اہتمام کر رکھا ہے۔ یہ ووٹر اپنے امیدواروں سے بھی زیادہ خاصے کی چیز ہیں۔ سارا سال کسی اورکے ڈیرے پر حاضری دیتے ہیں۔ الیکشن سے قبل دوسری پارٹی سے سلام دعا بہترکر لیتے ہیں۔ الیکشن سے ایک دن قبل کسی اور فریق سے وعدہ کرنے کے بعد شام کو دعائے خیر کسی سے کرلیتے ہیں اور صبح کسی اور امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی حال آج کل حکومتی اتحادی پارٹیوں کا ہے۔
ویسے توان اتحادیوں کی تعداد تقریباً چار ہے لیکن ان میں سے زیادہ فعال تین پارٹیاں ہیں اور ان تین پارٹیوں کا بھی قبلہ نما مسلم لیگ (ق) ہے۔ میرے سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ق لیگ فیصلہ سازوں کی رائے معلوم کرنے کے سلسلے میں مرغِ بادنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر اس خیال کو سامنے رکھیں اور گزشتہ چند دن کے دوران مسلم لیگ (ق) کی چک پھیریاں دیکھیں تو دو باتیں سمجھ آتی ہیں کہ یا تو فیصلہ ساز ازخود کنفیوژ ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر سب کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔ چودھری بھکن کا خیال ہے کہ فیصلہ سازوں نے ازخود سارا کنفیوژن پیدا کر رکھا ہے اور ان کے بیرومیٹر چودھری پرویز الٰہی نے کافی ساری میٹھی گولیاں سٹاک کر رکھی ہیں اورہر فریق کو ہرروز یہی گولی دے رہے ہیں۔ دو ہفتے سے زائد وقت ہو گیا ہے اور انہوں نے پاکستانی سیاست کے کائیاں ترین شخص آصف علی زرداری کو بھی لارا لگا رکھا ہے‘ اپنے شدید ترین مخالف میاں شہباز شریف کو اپنے در دولت کا طواف بھی کروا لیا ہے اور ان کے بندے تحریک عدم اعتماد کے اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے پر آنے کے بعد بھی حکومت میں وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔
زچ کرنے کا یہ عالم ہے کہ شیخ رشید مغلوب الغضب ہوکر انہیں پانچ سیٹوں والی تانگہ پارٹی قرار دے کر بلیک میلر تک کہہ دیتے ہیں۔ جواباً مونس الٰہی شیخ رشید کو زمانہ طالب علمی میں چودھری ظہورالٰہی مرحوم سے پیسے لینے کا طعنہ مار کر حساب برابر کردیتے ہیں۔ اسد عمر کے اعصاب بھی جواب دے دیتے ہیں اور وہ ق لیگ کودو اضلاع کی پارٹی قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور جواباً چودھری پرویزالٰہی ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بجائے حکومت کا تراہ نکال دیتے ہیں۔ اس زبانی کلامی ملاکھڑے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ وزیر جو اپوزیشن سے بات تک کرنے کے روادار نہ تھے اب صلح صفائی کیلئے واسطے ڈال رہے ہیں اور شیخ رشید اپوزیشن کو اس بات سے ڈرانے پر لگے ہوئے ہیں کہ اگر معاملات کو آپس میں افہام و تفہیم سے طے نہ کیا گیا تواگلے دس سال تک جمہوریت کو ترسنا پڑجائے گا۔ اپوزیشن سے گفتگو کے ازلی دشمن اب گفتگو پر زور دے رہے ہیں؛ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں صرف گفتگو کرنے، بیانات دینے اور دھمکیاں دینے والے ہی پرجوش اور سرگرم ہیں۔ جدھر سے اشارہ آنا ہے ادھر مکمل خاموشی ہے اور شاہ جی کے خیال میں ایسی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے؛ تاہم شاہ جی کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ طوفان کے اس پیش خیمے میں اور کچھ ہو یا نہ ہو عثمان بزدار کا خیمہ ضرور اڑ جائے گا۔ اللہ جانے شاہ جی کو ہمارے پیارے دوست اور یونیورسٹی فیلو عثمان بزدار سے مسئلہ کیا ہے۔
بی اے پی (باپ) والے چودھری پرویز الٰہی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ایم کیو ایم والے بھی اپنی دوربین کو چودھری پرویز الٰہی پر فٹ کئے بیٹھے ہیں۔ چودھری صاحبان جیسے ہی زرداری سے ملاقات کرتے ہیں ایم کیو ایم والے پیپلز پارٹی سے اپنے معاملات طے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چودھری صاحبان جیسے ہی مولانا فضل الرحمن سے جپھی ڈالتے ہیں باپ والے حکومت سے اپنا تعاون ختم کرنے پرغور شروع کردیتے ہیں۔ مونس الٰہی جیسے ہی شیخ رشید کو کھری کھری سناتے ہیں ایم کیو ایم زرداری صاحب سے طے ہونے والے معاملات میں پیشرفت کا اعلان کردیتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی جیسے ہی اپنے مہر بخاری والے انٹرویو سے یوٹرن لیتے ہیں تحریک انصاف کے منحرف وزرا عثمان بزدار سے ملاقات فرما لیتے ہیں۔ علیم خان ایک دن جہانگیر ترین کیمپ میں آتے ہیں۔ دو چار دن بعد لندن میں ان کی بڑے میاں صاحب سے رابطے کی خبر پھیلتی ہے اور واپس آ کر اپنے حامی ارکان کو پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں شرکت کی ہدایت فرما دیتے ہیں۔ غرض باغی، اتحادی، ناراض اور بیزار ارکان، سب کے سب صبح سے شام تک کم از کم ایک بار تواپنا موقف ضرور بدلتے ہیں۔ ہر آنے والا دن ایک فریق کے چہرے پر رونق اور دوسرے چہرے پر سراسیمگی لارہا ہے۔ ہاں اس دوران صرف شہباز گل ہیں جو کسی کو خاطر میں لائے بغیر بے عزت کرنے پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا اپنا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ پرسوں فرمانے لگے کہ راجہ ریاض دھنیا ہیں جو سبزی کے ساتھ مفت ملتا ہے۔
شاہ جی کے بقول لگتا ہے کہ ساری اتحادی پارٹیوں اور ناراض گروپوں نے شاید شجاعباد اور جلال پور پیروالہ والوں کا جھوٹا کھا لیا ہے جو انہی جیسی حرکتیں شروع کردی ہیں؛ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ سارے کے سارے اپنی اپنی چالاکیاں مارتے رہیں اور پینترے بدلتے رہیں جبکہ وہ کچھ ہو جائے جس کی حکومتی اتحادیوں سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک کسی کو بھی امید نہ ہو۔ اس ملک میں سدا انہونیاں ہوتی رہی ہیں اور انہونی ظاہر ہے انہونی ہی ہوتی ہے۔