ٹیکسی والے کے ارمانوں کا خون

ابھی ایک ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جو کسی چینل کے رپورٹر کا تھا۔ اس نے ایک ٹیکسی والے سے پٹرول پمپ پر پوچھا: حالات کیسے چل رہے ہیں؟ شاید وہ پٹرول کی قیمت بڑھنے پر اس کے تاثرات جاننا چاہ رہا تھا۔ اس نے جونہی مائیک آگے کیا تو اس نوجوان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ خان صاحب کے پرانے حامیوں میں سے تھا جو دھرنے کے پورے 126 دن ان کے ساتھ رہا۔ سرگودھا تک جلسوں میں اپنی ٹیکسی دوڑاتا رہا کہ چور ڈاکو اس ملک کو کھا گئے ہیں اور اب ایک ایماندار بندہ آ گیا ہے جو انہیں بہتر زندگی اور سہولتیں دے گا۔ اُس کی آواز بھرا گئی۔ بولا کہ اس کی حالت جواب دے چکی ہے۔ وہ گھر نہیں چلا پا رہا۔ اس کے پاس گھر کے کرائے اور بچوں کے اخراجات تک کے پیسے نہیں۔ اس کے بہن بھائی کچھ مدد کر دیتے ہیں۔ گھروں میں جھگڑے ہو رہے ہیں۔ گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ ان کی حالت بہت خراب ہے۔
یہ کلپ دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں بتایا جاتا ہے‘ لوگوں کو امید دلانی چاہئے‘ مایوسی کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اب اس بندے کو کیا امید دلائی جائے جس کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے۔ اس کو بھی خان صاحب نے امید دلائی تھی کہ نوے دن میں سب کچھ ٹھیک کر دیں گے‘ اس کی زندگی بدل جائے گی۔ اس لیے وہ سب کام چھوڑ کر خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گیا اور پھر اس نے گھر بار‘ بیوی بچے‘ بہن بھائی‘ سب بھلا دیے کہ اگر عمران خان کامیاب ہو گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دن رات ٹیکسی چلا کر پارٹی کی خدمت کرنے کے بعد اب اسے پتا چلا ہے کہ وہ چار سال پہلے سے زیادہ مشکل لائف گزار رہا ہے۔ اُس وقت کم از کم اس کے پاس گھر کا کرایہ دینے کو پیسے تھے لیکن اب تو وہ بھی نہیں رہے۔
اس بندے کی آنکھوں میں امڈتے آنسو اور بے بسی بڑے عرصے تک مجھے یاد رہے گی۔ لوگوں کو ہر دفعہ لگتا ہے کہ اب کی بار اِن کے ساتھ دھوکا نہیں ہو گا۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اتنے دھوکے کھا چکے ہیں کہ اب وہ کسی کے فریب میں نہیں آئیں گے‘ لیکن پھر بڑا دھوکا کھاتے ہیں کیونکہ نیا مداری نئے حلیے اور نئی چالوں کے ساتھ رِنگ میں داخل ہوتا ہے اور تماشائیوں کی تمام تر سمجھداری اور ہوشیاری کے باوجود انہیں دھوکا دیتا ہے۔ شکست خوردہ لوگ خود کو پھر سمجھاتے ہیں کہ بس کافی ہو گیا اب کی دفعہ ہم بیوقوف نہیں بنیں گے لیکن پھر کوئی نیا کرتب‘ نیا کھلاڑی انہیں یقین دلاتا ہے کہ اب کی دفعہ ایسا نہیں ہو گا بلکہ جنہوں نے ان سے پہلے ان کے ارمانوں کا خون کیا تھا‘ ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔ جس نوجوان ٹیکسی ڈرائیور کے کلپ کی میں نے بات کی‘ وہ اس طبقے سے ہے جو نواز شریف اور زرداری سے تنگ تھا‘ اور سمجھتا تھا کہ خان صاحب ایمان دار ہیں اور ملک کو بہتر کر دیں گے‘ لیکن اب چار سال بعد اسے لگ رہا ہے کہ اس کے ساتھ پھر دھوکا ہو گیا ہے۔ وہ یہی کہہ رہا تھا کہ چار سال گزر گئے ہیں اور ہمارا جینا حرام ہو چکا ہے‘ میرا گھر ٹوٹ رہا ہے‘ میں کہاں جائوں؟
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حامیوں نے کبھی یہ سوچا کہ انہوں نے عوام کو فائدہ زیادہ دیا ہے یا نقصان؟ چار سال اسی لڑائی میں گزر گئے۔ دن رات ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ یار دوستوں کو نوازا گیا‘ اپنی اے ٹی ایمز اور دوستوں کی جیبیں بھریں۔ اپنے مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انہوں نے کبھی خان صاحب کے ساتھ کیا تھا یا وہ ان کے ساتھ کریں گے جب عمران خان اقتدار سے باہر ہوں گے۔ اگر پاکستانی سیاست کو سمجھنا ہو تو اسے اصولوں کے بجائے ان لیڈروں کے ذاتی ایشوز سے دیکھا کریں۔ میں اب تک جو سمجھا ہوں یہ سب ذاتی ایشوز ہیں اور ذاتی انتقام ہے جس میں عوام کی ہمدردی کا نام دے کر اقتدار پر قبضہ ہوتا آیا ہے۔ ذاتی دشمنیاں اور سیاسی مخالفتیں بنیں اور پھر عوام کو بتایا گیا کہ فلاں فلاں نے لوٹ مار کی اور میں آپ کو ان لٹیروں سے بچائوں گا۔
اگر آپ نے خان صاحب کی نواز شریف اور زرداری سے دشمنی کی وجہ جاننا ہو تو ان کی کتاب ”مائی پاکستان‘‘ پڑھ لیں۔ یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ کیسے وہ اپنے خلاف میڈیا کمپین اور ازدواجی زندگی خراب ہونے کا ذمہ دار شریف خاندان کو سمجھتے ہیں۔ وہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری سے بھی ہسپتال کے لیے فیورز مانگنے گئے تھے‘ جو انہیں نہیں ملی تھیں‘ جس پر وہ ناراض تھے بلکہ سننے میں آیا کہ زرداری صاحب نے حسب عادت عمران خان سے کچھ حصہ بھی مانگ لیا تھا۔ شریف خاندان نے ان کے سیاست میں داخل ہونے پر ان کے خلاف میڈیا کو ایکٹو کیا اور امریکہ سے برطانیہ تک سکینڈلز نکال کر لائے۔ عمران خان اس ہینگ اوور سے نہیں نکل پائے کہ ان کے گھر کو خراب کیا گیا‘ ان کی پہلی بیگم کے بیک گرائونڈ کو ایشو بنا کر انہیں الیکشن ہرایا گیا۔
یوں خان صاحب کے اندر غالباً وہ غصہ بھرتا چلا گیا جس کی شکل ہم آج دیکھتے ہیں۔ انہیں میڈیا اور شریفوں پر زیادہ غصہ تھا اور انہوں نے دونوں کو فکس کرنے کی کوشش کی۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو میری یہ بات ہضم نہ ہو کہ کرپشن یا کرپٹ عمران خان کا مسئلہ یا ایشو نہیں تھے۔ اگر انہیں کرپٹ یا کرپشن سے مسئلہ ہوتا تو آپ کا کیا خیال ہے وہ ان کو سپیکر بنواتے‘ جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ مونس الٰہی کو اپنا وزیر بناتے جن کے خلاف سپریم کورٹ نے لندن بارکلے بینک سے اٹھارہ لاکھ پاؤنڈ ریکور کرانے کا حکم دے رکھا ہے‘ یا فہمیدہ مرزا کو وزیر بناتے جنہوں نے سپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرضہ معاف کرایا‘ یا پھر وہ فرد ان کی کابینہ کا اہم رکن ہوتا جس کے خلاف ایف آئی اے کی پانچ جے آئی ٹی رپورٹس سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں؟ یہ فہرست بہت لمبی ہے کون کون کرپٹ کابینہ میں وزیر یا مشیر ہے اور وہ ان کا لاڈلا تصور ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ تو ثابت ہو گیا کہ انہیں پرابلم کرپٹ اور کرپشن سے نہیں‘ ہاں اگر وہ کرپٹ نواز شریف یا زرداری کی پارٹی کا ہے تو پھر پرابلم ضرور ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے یا ان کے اتحادیوں کے کسی وزیر یا لیڈر نے کرپشن کی ہے یا کر رہا ہے تو یہ انہیں یا ان کی پارٹی کے خیال میں مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ اس لیے مجھے کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کے نزدیک اقتدار میں آنے کا مقصد کرپشن کو ختم کرنا نہیں تھا‘ ورنہ درجن بھر سکینڈلز میں ملوث وزیر آج بھی کابینہ میں نہ بیٹھے ہوتے۔
ہو سکتا ہے خان صاحب کو لگتا ہو کہ ان ساڑھے تین برسوں میں انہوں نے شریفوں اور زرداریوں سے سکور سیٹل کئے‘ پرانے بدلے چکائے جس کیلئے انہوں نے برسوں کوشش کی تھی اور ہر کمپرومائز کیا‘ لیکن میرا خیال ہے اس پورے پروسیس میں وہ کچھ نئی دشمنیاں بھی بنا بیٹھے ہیں اور ان کے مخالفین اب انہیں گھیرے میں لے چکے ہیں۔ انہیں اس جنگ میں میڈیا سپورٹ دے سکتا تھا لیکن انہوں نے میڈیا کو بھی ان ساڑھے تین برسوں میں دشمن بنایا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ شاید وہ دوبارہ وزیر اعظم نہ بن پائیں لہٰذا ایک ہی دفعہ سب کو سیدھا کرکے بدلے چکاتے جائیں۔ ویسے انہیں اس آنسو بہاتے نوجوان کی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ خان صاحب ہی بتا دیں کہ کون چور ہے اور کون ایماندار۔ اگر خان صاحب ایمان والے ہیں تو پھر عوام کا کیا حال ہو گیا ہے۔