بلوچ طلباء کی بازیابی کا کیس، نگراں وزیراعظم پھر پیش نہ ہوئے

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت پر وزیراعظم پیش نہ ہوئے جس پر نگراں وزیراعظم کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کرلیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپنے ملک کے شہریوں کو ریکور کرنے کے لیے 2 سال لگے، ان کے خلاف لڑائی جھگڑے، نارکوٹکس سمیت کسی قسم کا کوئی کیس نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مسنگ پرسنز کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں، چوبیس ماہ میں ابھی تک تمام بچوں کو ریکور نہیں کرسکے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ لاپتہ 12 طلباء ابھی بازیاب نہیں ہوئے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق 8 طلباء ابھی بازیاب نہیں ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نگراں وزراء، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کدھر ہیں؟ دوسری دفعہ وزیراعظم نہیں آئے؟

سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ آفتاب درانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم سے پوچھ لیں،ان کو اس لیے بلایا تھا کہ وہ جوابدہ ہیں، یہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، یا آپ ان افراد کے خلاف کرمنل کیسز کی تفصیل بتائیں، یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یا پھر یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے انہیں اغوا کرلیا، اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہوچکیں، جو شہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں، ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسلام آباد ایف 6 میں سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لے گئے، تین حکومتیں لاپتہ بلوچ اسٹوڈنٹس کی بازیابی کا کچھ نہیں کرسکیں، ابھی نگراں حکومت ہے، اس سے پہلے 16 ماہ کی حکومت تھی، اس سے پچھلی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کرسکی۔

’ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم اور جوابدہ ہیں‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔ یہ سب افسران جوابدہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ہم کیوں وزیراعظم کو بلائیں؟ جن پر الزام ہے انہی ادارے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔

’نئی حکومت آئے گی، انہیں پالیسی بنانے کا وقت دیدیں‘

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی، انہیں پالیسی بنانے کا وقت دے دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ کیا کہیں گے کہ کیا جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنیٰ ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کا غلط استعمال کرتے رہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں، یونیفارم کی عزت کو بحال کرانے کی ضرورت ہے۔

’اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو FIR آئی جی کیخلاف ہوگی‘

اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آئی جی کو بتا دیں اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر ان کے خلاف ہوگی، ساری دنیا دیکھ رہی ہے، یہاں تمام ممالک کے سفارتخانے ہیں، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں۔

عدالت میں شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے گھر پر رات دو بجےچھاپا مارا گیا ، چھاپا مارنے والوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔

اس پر جسٹس کیانی نے کہا کہ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں، ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے، یہ لکی مروت نہیں، اسلام آباد کی بات کر رہے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر یہاں ایک رکن اسمبلی کےساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آئین کی بات کریں تو اب سب ہنستے ہیں، کوئی سیاسی حکومت ہو یا نئی حکومت آنے والی ہو، جواب کمیٹی نے دینا ہے، ہم آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔

بعدازاں عدالت نے نگراں وزیراعظم کے ساتھ وزارت داخلہ اور دفاع کے وزراء کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔