سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔

الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کل آرڈر کیا کہ تمام درخواستوں کو یکجا کرنا ہے، الیکشن کمیشن نےفیصلہ کیا کہ اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کو نوٹس کیا جائے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ رات کو نوٹس کریں اور صبح جماعتیں تیار ہوں، اس سماعت کو معنی خیز کریں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سب جماعتوں کو نہیں اسمبلی کی متعلقہ جماعتوں کو بلایا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر بے معنی نہیں ہو سکتا، ایم کیو ایم نے کہا کہ ہمیں سندھ اسمبلی میں نشستیں دی جائیں، آج میری درخواست سماعت پر پہلے نمبر پر لگی ہے، آپ نے میری درخواست کو التواء میں رکھا، جب باقی درخواستیں آئیں تو پھر میری درخواست سماعت کے لیے مقرر کی، اس سے پہلے میری درخواست مقرر نہیں کی، آپ کے ذہن میں کوئی سوال تھا اس لیے آپ نے معاملہ سماعت کے لیے مقرر کیا، ورنہ آپ مختص سیٹ کا اعلان کر سکتے تھے، حقیقت یہ ہےکہ پی ٹی آئی کا نشان لیا گیا، سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ نشان نہیں دیں گے تو مخصوص نشست کا مسئلہ ہو گا، سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشست لے لے گا، سپریم کورٹ کو ای سی پی کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم میں یہ لکھا گیا ہے؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جو میں نے پیش گوئی کی تھی وہ ہوا۔

الیکشن کمیشن کے ممبر نے کہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں تھا کہ آپ کس جماعت میں جا رہے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن لڑے، اسمبلی میں آزاد آمیدوار سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہیں، ابھی غیر معمولی صورتِ حال ہے، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی اسمبلی میں اکثریت ہے، آزاد امیدواروں کو کوٹے پر کیسے مخصوص نشست مل سکتی ہے؟ یہ سوال ہے، قومی اسمبلی کی آزاد نشستوں کے 86 اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، اسی طرح سندھ میں 9، پنجاب میں 107 اور کے پی میں 90 ایم پی ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، دو اسمبلیوں میں ہم اکثریت اور ایک اسمبلی میں تقریباً اکثریت میں ہیں، سنی اتحاد کونسل پر اعتراض کیا گیا کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ ایس آئی سی میں شامل امیدواروں کو مخصوص نشست نہیں ملنی چاہیے، اعتراض ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے 3 دن میں ایس آئی سی میں شمولیت اختیار نہیں کی، اعتراض ہے کہ آپ آزاد امیدوار ہیں، اس کا بھی جواب دینا ہے، اعتراض ہے کہ ایس آئی سی نے مخصوص نشست کی فہرست نہیں دی تھی اس لیے انہیں نشست نہیں مل سکتی، مجھے ان تین اعتراضات کا جواب دینا ہے، سیاسی جماعت وہ ہے جو الیکشن کمیشن رجسٹر کرے گا، سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے تو وہ ہر مقصد کے لیے رجسٹرڈ ہے، سیاسی جماعت وہ تنظیم ہے جو الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی جماعت وہی ہو گی جو الیکشن میں حصہ لے، سیاسی جماعت وہ ہے جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعت وہ ہے جو الیکشن میں حصہ لینے کے مقصد کے لیے بنی ہو، آپ نے جس جماعت کو رجسٹر کیا اور نشان بھی دیا وہ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی فہرست میں پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ نوٹس دے کر ڈی لسٹ کریں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ آپ ڈی لسٹ کر سکتے ہیں، اس کے لیے نوٹس دینا ہو گا، طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا، جماعت تحلیل کرنے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجنا ہو گا، نشان مل جائے تو الیکشن ایکٹ کے تحت وہ جماعت الیکشن لڑ سکتی ہے، ایس آئی سی سیاسی جماعت ہے جسے نشان ملا، آرٹیکل 17 کے مطابق ہر شہری کو ماسوائے سرکاری ملازم کے سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق ہے، مختلف حقوق دیے گئے ہیں، سیاسی جماعت کو الیکشن کا پورا عمل لڑنے کا حق ہے، پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت کی بھی وضاحت کروں گا، آپ پارلیمنٹ میں آئیں تو آپ کا حق حکومت قائم کرنا ہے، کسی جماعت کو حکومت بنانے کے حق سے روکنا آئینی خلاف ورزی ہے، سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے بلکہ حکومت بنانے کا بھی حق ہے، ایس آئی سی سیاسی جماعت ہے جو رجسٹرڈ ہے اور اس کے پاس نشان ہے، یس آئی سی کو آزاد ممبر جوائن کریں تو حکومت بنانا ان کا حق ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایس آئی سی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، آپ کہتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل آزاد ممبران کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی ہے، سیاسی جماعت بعد میں پارلیمانی جماعت بنتی ہے تو کیا اسے مخصوص نشست مل سکتی ہے؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ صدارتی الیکشن کرانے کے طریقہ کار کا فارمولا آئین میں شامل ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سوال کیا کہ اس کا صدارتی الیکشن سے کیا تعلق ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ مخصوص نشستیں تو مکمل ہوں گی، یہ کس کو ملیں گی اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب صدارتی الیکشن ہو گا اس میں آزاد ارکان کا کردار ہو گا، مخصوص نشست خیرات نہیں ہے، یہ نہیں کہ ایک پارٹی آ جائے کہ مخصوص نشست اس کی ہے، آئین میں لکھا ہے کہ مخصوص نشست کس کو ملے گی، مخصوص نشست کے لیے دیا گیا فارمولا تبدیل نہیں ہو سکتا، آپ مخصوص نشستیں اٹھا کر کسی کو ایسے ہی نہیں دے سکتے، ہر سیاسی جماعت جتنا جیتے گی اس کے مقابلے میں اتنی مخصوص سیٹیں ملیں گی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ کہا گیا ہے کہ مخصوص نشست کا معاملہ قانون کے مطابق ہو گا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخصوص نشست سیاسی جماعتوں کی فہرست کے مطابق ہو گی۔

ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کے بندے ایس آئی سی میں نہیں گئے اور آزاد بیٹھے ہیں تو کیا ہو گا؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سیٹ اٹھا کر کسی کو دے دیں، ایک جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہو سکتے ہیں اور وہ پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، آئین نے صرف یہ پابندی لگائی ہے کہ آزاد امیدوار کو 3 دن میں سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہے، جس کے پاس نشان نہیں اس جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کا یہ بھی معاملہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود نہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نہیں کہا کہ جس میں شمولیت اختیار کی جائے وہ سیاسی جماعت انتخابات لڑ کر پارلیمنٹ میں شامل ہو۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اگر یہ واضح ہوتا تو یہ معاملہ ہی نہ ہوتا۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار پارٹی میں شامل ہو جائے تو وہ سیاسی جماعت بن جاتی ہے اور اسے مخصوص نشست ملے گی، آئین سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق کرتا ہے، آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے تو وہ جماعت پارلیمنٹ کا حصہ بن جائے گی۔

ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ مخصوص نشست کے لیے لسٹ پارٹی ہیڈ دے گا یا پارلیمانی لیڈر ؟ پارلیمانی پارٹی کا ہیڈ اگر کہے کہ یہ لسٹ میری نہیں ہے، سیاسی ہیڈ تو پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے آزاد امیدوارں نے نوٹیفکیشن کے 3 دن کے اندر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی، الیکشن کمیشن نے ان کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے، ایک اعتراض ہے کہ آپ نے ترجیحی فہرست نہیں دی اس لیے مخصوص نشست نہیں مل سکتی، یہ کہتے ہیں کہ آپ نے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تو آپ کو مخصوص نشست نہیں مل سکتی، اگر آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہیں آتے تو کیا خواتین کی نشست خالی رہ جاتیں، لسٹ دینی ہے اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا کہ نشست ملنی ہے یا نہیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کہ اس لسٹ کو دینے کا کوئی ٹائم فریم ہے؟

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ہم نے مخصوص نشستوں کے لیے شیڈول دیا تھا۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب بھی مخصوص نشست خالی ہو گی تو نشست پر آپ شیڈول دیں گے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ہاں جب نشست خالی ہو گی تو شیڈول دیں گے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس پر نہ قانون کلیئر ہے نہ آئین، کون اس کی تشریح کرے گا؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کی تشریح آپ کو کرنی ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم تو تشریح نہیں کر سکتے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ نے سیٹ دینی تو ہے، ایک جماعت ہے جس نے لسٹ نہیں دی لیکن وہ پارلیمنٹ میں موجود ہے، ایک لسٹ ایگزاسٹ ہو جائے اور نشست خالی ہو جائے تو اس کو فِل کیا جاتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اگر لسٹ ایگزاسٹ ہو تو خالی نشست فِل ہوتی ہے، قانون ساز یہ بھی لکھ سکتے تھے کہ اگر نئی پارٹی آ جائے یا جس نے ترجیحی فہرست نہ جمع کرائی ہو تو اسے نشست دے دیں، سنی اتحاد کونسل کا ہمارے پاس لیٹر ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے الیکشن لڑا نہ ہمیں مخصوص نشست پر فہرست دینے کی ضرورت ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ خیبر پختون خوا اسمبلی میں آزاد ارکان کی اکثریت ہے اور سیاسی جماعتیں کم، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ 7 سیٹیں رکھنے والے کو 20 مخصوص نشستیں دے دیں، ایک جماعت نے لسٹ نہیں دی کہ ان کا خیال تھا کہ وہ جیت نہیں سکتے، لیکن بعد میں بہت سارے آزاد ارکان اس جماعت میں شامل ہوں، الیکشن کمیشن کو اپنے آپ کو اختیارات دینا ہوں گے کہ ہم دوبارہ شیڈول دیتے ہیں آپ ترجیحی فہرست جمع کرائیں، الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات استعمال کرنے کا حق ہے، خیبر پختون خوا میں بلوچستان عوامی پارٹی میں آزاد ارکان کو شمولیت کی الیکشن کمیشن نے اجازت دی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سوال کیا کہ آپ کے پاس بلوچستان عوامی پارٹی کے معاملے کی کوئی دستاویزات ہیں؟

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ بی اے پی خیبر پختون خوا میں آئی تو وہاں فاٹا کی نشست خالی تھی جو انہیں ملنا تھی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن 4 سیٹ لینے والی پارٹی میں ساری مخصوص نشستیں بانٹ نہیں سکتا، اس کے لیے آپ کو کوئی آئینی ترمیم کرنا ہو گی، ایک جگہ ترجیحی فہرست ٹائم پر جمع نہیں ہوئی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ایک دن تاخیر پر ایک سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں سے محروم نہیں کیا جا سکتا، مخصوص نشست ٹرانسفر نہیں ہو سکتی، ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ جہاں انہیں موقع ملے تو دوسروں کو ملنے والی نشست بھی ہڑپ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، سیاسی جماعتوں کو لالچ ہی مار رہا ہے، ابھی 78 مخصوص نشستیں مجموعی طور پر خالی ہیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ جمہوریت کی جو بات کر رہے ہیں وہ آئیڈیلزم کی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل
اس کے ساتھ ہی بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔

سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دیا گیا
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دے دیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 جنوری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا، سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جنرل الیکشن نہیں لڑے نہ مخصوص نشستیں چاہئیں، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں تو آپ کیوں انہیں مجبور کر رہے ہیں؟

علی ظفر کا سنی اتحاد کونسل کے خط سے اظہارِ لا علمی
بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لا علمی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کا نہیں بتایا۔

PPP کے وکیل فاروق نائیک کے دلائل
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے کوئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی، سیاسی جماعت کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ گزر جانے کے بعد ترجیحی لسٹ میں ترمیم بھی نہیں کر سکتی، قانون اتنا سخت ہے کہ آپ کوئی نام تبدیل بھی نہیں کر سکتے، اگر آپ کی فہرست ایگزاسٹ ہو تب آپ نیا نام جمع کرا سکتے ہیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ لسٹ ہو گی تو ایگزاسٹ ہو گی۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کیس میں لسٹ ہو گی تو ایگزاسٹ ہو گی۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو سیٹ نہیں ملے گی، تو پھر یہ سیٹیں کسے ملیں گی؟

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ترجیحی فہرست جمع کرانے کی تاریخ ایکسپائر ہو چکی، اب کوئی نئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی جا سکتی، مخصوص نشست کی لسٹ صرف ختم ہونے پرنیا نام دیا جا سکتا ہے، الیکشن ایکٹ میں ابھی تک ترمیم نہیں آئی، سنی اتحاد کونسل صرف مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے اس وقت فہرست نہیں دے سکتی۔

فاروق نائیک کے دلائل مکمل
اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہو گئے۔

ن لیگی وکیل اعظم نذیر تارڑ کے دلائل
ان کے بعد مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ترجیحی فہرست قانون کے مطابق دی جائے گی، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا کیا آزاد ارکان اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ مخصوص نشست کے دعوے کے لیے سیاسی جماعت کو چند سیٹیں جیتنا لازم ہے، الیکشن میں حصہ لیں، کچھ سیٹیں لائیں تو آزاد ارکان ملا کر بڑھا سکتے ہیں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، مخصوص نشست جب انتقال، نا اہلی یا استعفے سے خالی ہو تو اس کے لیے نیا نام دیا جا سکتا ہے، لسٹ کا موجود ہونا لازم ہے، اس میں نیا نام شامل ہو سکتا ہے، قانون جس چیز سے منع کرتا ہے وہ منع ہی سمجھی جائے گی، لسٹ ہی نہیں تو نیا راستہ تلاش کرنا میری نظر میں درست نہیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ موجود لسٹ میں نام شامل کیا جاسکتا ہے؟

مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون کے مطابق آزاد امیدواروں کو مخصوص نشست نہیں دی جا سکتی، پنجاب اسمبلی میں سابقہ اسمبلی میں کافی آزاد ارکان تھے، انہیں مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، آئی پی پی 3 نشست کے ساتھ آئی، ان کی ترجیحی فہرست تھی، اگر آزاد امیدوار آئی پی پی میں شامل ہوتے تو ان کو مخصوص نشست مل سکتی تھی، یہ نہیں ہو سکتا کہ نمبر زیادہ ہیں تو آپ آزاد امیدواروں کو مخصوص نشست دے دیں۔

اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کے دلائل مکمل ہو گئے۔

ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم کے دلائل

ن لیگی وکیل کے بعد ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں، روکی ہوئی مخصوص نشستیں ایم کیو ایم کو کوٹے کے مطابق دی جائیں، سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا نہ ترجیحی فہرست جمع کرائی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق مخصوص نشستوں پر فیصلہ کرے۔

اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہو گئے۔

الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔