پہلے سودن والا کام آخری سو گھنٹوں میں

فی الوقت ایسا سیاسی گھڑمس مچا ہوا ہے کہ کسی کو بھی یقین سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔ صورتحال حکومت کی حد تک خراب ہونے کے باوجود اس ملک میں ماضی میں ہونے والی اَن گنت سیاسی انہونیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی سمجھدار اور پاکستانی سیاست سے واقفیت رکھنے والا شخص کھل کر کچھ نہیں کہہ رہا اور کھل کر کہے بھی کیسے ‘ کل تک کسی حکومتی اتحادی نے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کے بجائے ہر دو اطراف کو مطالبات کی فہرست پکڑا کر ویسے ہی بولی لگوانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جیسے صبح صبح سبزی منڈی میں آڑھتی اور بیوپاری سبزی کا ڈھیر سامنے رکھے قیمت کی بولی لگوا رہے ہوتے ہیں۔اس فارمولے کے تحت چوہدری پرویز الٰہی نے بڑی بولی لگنے پر اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
اب ایسے حالات میں کوئی بندہ آپ سے یہ کہہ دے کہ حکومت سوفیصد جا رہی ہے تو سننے والا یہ تو ضرور پوچھے گا کہ آخر ایسا کون سا فارمولا اس کے ہاتھ لگا ہے کہ وہ اتنے یقین سے یہ کہہ رہا ہے؟ جب چوہدری نے کہاکہ حکومت نہ صرف یہ کہ جا رہی ہے بلکہ وہ اب خود اس کا اعلان بھی کر رہی ہے تو شاہ جی سے نہ رہا گیا اور وہ چوہدری صاحب سے پوچھنے لگے کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ اتنے یقین سے کہہ رہا ہے کہ حکومت جا رہی ہے اور حکومت نے کب اقرار کیا ہے کہ وہ جا رہی ہے؟
چوہدری پہلے تو اپنی بات کو اتنی اہمیت ملنے پر خوشی سے پھولے نہ سمایا اور جواب دینے کے بجائے اپنی مونچھوں کو تاؤ دینے لگ گیا حالانکہ ان مونچھوں کا سائز نامعقولیت کی حد تک اس کام کیلئے نامناسب تھا مگر چوہدری کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس پر شاہ جی کو تاؤ آ گیا اور وہ اس سے کہنے لگے کہ تم سے کچھ پوچھا ہے؟ چوہدری بھولا بن کر کہنے لگا: اچھا! تو بھلا تم نے کیا پوچھا تھا؟ شاہ جی کہنے لگے :یہی کہ تم کیسے اتنے یقین سے کہہ رہے ہو کہ حکومت جا رہی ہے؟ چوہدری کہنے لگا :بھلا میں کب کہہ رہا ہوں کہ حکومت جا رہی ہے؟ یہ تو خود حکومت کہہ رہی ہے کہ بس ہم جانے ہی والے ہیں۔ شاہ جی زِچ ہو کر کہنے لگے کہ یہی تو ہم پوچھ رہے ہیں کہ حکومت نے کب کہا ہے کہ وہ جا رہی ہے۔ چوہدری بھکن کھچروں کی طرح مسکرایا اور کہنے لگا: آپ لوگ خاصے نالائق‘ احمق اور خبروں کو ان کے حقیقی تناظر میں دیکھنے سے مکمل عاری لوگ ہیں۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ آپ خبروں کو میری طرح عقل و دانش کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا کریں اور ان کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کیا کریں مگر اللہ یہ توفیق ہر کسی کو نہیں دیتا۔ وہ اپنا یہ کرم کسی کسی پر کرتا ہے جیسے اس نے مجھ حقیر پر کیا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: اس خالقِ کائنات اور مہربان نے تمہیں عقل و دانش کے بجائے خوش فہمیوں کا ایک عظیم خزانہ بخش کر اس دنیا میں بھیجا ہے تاہم فی الوقت تو تم اپنے اس فضول اور واہیات بیان کو ثابت کرو کہ حکومت خود مان رہی ہے کہ وہ جا رہی ہے۔
چوہدری کہنے لگا: حکومت نے کہا ہے کہ وہ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی قرار داد پیش کرنے جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو پتا چل گیا ہے کہ وہ جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کے قیام کا اعلان تبھی ہوتا ہے جب حکومت کو صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ وہ اب جا رہی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو بھی صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کا خیال تب آیا جب ان کی رخصتی میں دو چار دن باقی رہ گئے تھے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بھی صوبہ جنوبی پنجاب کا ارادہ تبھی فرمایا جب ان کی نااہلی اور اقتدار سے رخصتی کو چار چھ دن باقی رہ گئے تھے اور اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب کے چالاک اور کاریگر قسم کے سیاستدانوں کے گروپ سے‘ جس کا نام جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تھا‘ معاملات طے کرتے ہوئے ان سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے سو دن کے اندر اندر صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی طرف عملی اقدامات کرے گی۔ سو دن تو کب کے گزر گئے ہیں اب جبکہ رخصتی میں سو گھنٹے باقی رہ گئے ہیں خان صاحب اینڈ کمپنی کو صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا اچانک خیال آگیا ہے۔
تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے درمیان اس سلسلے میں باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ عمران خان نے 29 اپریل2018ء کے اپنے جلسے میں تحریک انصاف کے منشور کے جو گیارہ نکات بیان کئے تھے ان میں آٹھویں نکتے میں صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ اس میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ جنوبی پنجاب محاذ کی تشکیل کی بنیاد ہی جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام ہے اور یہ طے پایا کہ پائیدار معاشی و معاشرتی ترقی ‘ بہتر گورننس‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور استعمال کیلئے انتظامی بنیادوں پر صوبہ پنجاب کی تقسیم ناگزیر ہے۔ اس تحریری معاہدے میں جس پر خود عمران خان اور جنوبی پنجاب میں صوبہ محاذ کے چیئرمین میر بلخ شیر مزاری ‘ صدر خسرو بختیار اور جنرل سیکرٹری طاہر بشیر چیمہ جو طارق بشیر چیمہ کے سگے بھائی ہیں‘ نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے چوتھے نکتے کے مطابق یہ وعدہ کیا گیا تھا اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے چیئرمین‘ صدر اور جنرل سیکرٹری شامل ہوں گے جو جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے انہیں سفارشات پیش کرے گی اور اسی نکتے میں سودن کے اندر اندر صوبے کے قیام کیلئے عملی اقدامات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ جس میں یوں سمجھیں کہ تیرہ سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں صوبہ کی پیش رفت تو رہی ایک طرف اس کمیٹی کا ایک اجلاس تک نہیں ہوا۔ دو اڑھائی سال بعد صرف ایک سب سیکرٹریٹ دے کر گولی دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ سیکرٹریٹ بھی چوں چوں کا مربہ بنایا گیا۔ آدھا ملتان میں اورآدھا بہاولپور میں۔ اوپر سے ایک عرصہ تک اس سیکرٹریٹ کے سربراہ اور سیکرٹریز کے پاس انتظامی اختیارات بھی نہیں تھے بلکہ حقیقت میں تو اب بھی نہیں ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے تو عملی طور پر کچھ نہ ہوا ہاں البتہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار خود بہت کچھ بن گئے۔ ان کی اوران کے بھائیوں کی سینہ بہ سینہ چلنے والی کہانیاں اب کھلیں گی؛ تاہم اگر کچھ نہیں کھلے گا تو وہ عمران خان کی آنکھیں ہوں گی‘ جن میں اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت ہی نہیں رکھی کہ وہ وقت پر کھل سکیں۔
ابھی عمران خان صاحب کو وزیراعظم بنے سودن مکمل نہیں ہوئے تھے میں نے تبھی ایک ٹی وی پر گفتگو کے دوران صاف طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے سلسلے میں کم از کم اگلے پونے پانچ سال تو عملی طور پر کچھ نہیں ہو گا کیونکہ موجودہ صورتحال میں صوبہ پنجاب کی تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ بزدار صاحب صوبہ جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں اور لاہور میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ ہو۔ موجودہ پنجاب اسمبلی کی کمپوزیشن ایسی ہے کہ تحریک انصاف کو ملتان بہاولپور اور ڈیرہ غازی میں عددی برتری حاصل ہے جبکہ بقیہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو عددی برتری حاصل ہے۔ ایسی صورت میں عمران خان یہ انتظامی تقسیم کسی صورت نہیں کریں گے۔ ہاں ! البتہ یہ ضرور ہو گا کہ رخصتی سے قبل وہ یہ شوشہ چھوڑیں گے۔ تب یہ خیال تھا کہ یہ شوشہ 2023ء میں چھوڑا جائے گا‘ لیکن یہ شوشہ جلد چھوڑا جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے رخصتی کی تاریخ تبدیل ہو کر قبل از وقت آ گئی ہے۔ کیا ٹائمنگ ہے‘ جو کام پہلے سو دن میں کرنا تھا اس کا خیال آخری سو گھنٹوں میں آیا ہے۔