گمنام گائوں کا آخری مزار

پچھلے ہفتے صدمے سے گزرنا پڑا۔ ماموں ظفر فوت ہوئے تو بہت گہری افسردگی نے گھیر لیا۔
ماموں ظفر سے بہت کچھ سیکھا اور بڑی بات یہ سیکھی اپنے بھانجوں‘ بھتیجوں کا ماموں بن کر کیسے دکھایا جاتا ہے۔ کیسے اپنے رشتے داروں اور دوستوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ گائوں کا جو بھی بندہ نشتر ہسپتال ملتان گیا ان سب کو گھر رکھا۔ ان کا خیال رکھا۔ گائوں کا کون سا گھر ہوگا جس کی ملتان میں میزبانی نہ کی ہو۔ ان کا گھر فقیر کی سرائے کی مانند تھا جہاں کوئی بھی بھولا بھٹکا مسافر ایک دو راتیں نہیں بلکہ کئی دن تک پناہ لے سکتا تھا۔ میں بھی بڑا عرصہ ملتان ان کے گھر رہا کہ ملتان یونیورسٹی سے فارغ ہونے بعد رہنے کو کوئی جگہ نہ تھی۔
اب ان کی قبر پر گائوں کے قبرستان میں ڈھلتی دوپہر میں کھڑے ہوکر میں نے چار سو نظر دوڑائی تو لگا‘ شاید پورا گائوں یہاں آباد ہوگیا ہے۔ اماں، بابا، بھائی، بہنیں، دادا، نانا، نانی، چاچے، نوجوان کزن، خالائیں، قریبی رشتے دار بزرگ سب یہیں دفن ہیں۔ جو گائوں بچا ہے شاید وہ کوئی اجنبی جگہ ہے۔ وہاں کچھ نوجوان رہتے ہیں جنہوں نے ہم سب کی طرح سوچ رکھا ہے انہوں نے نہیں مرنا‘ نہ ہی یہاں دفن ہونا ہے۔
کبھی ہمارا گائوں ایک خوبصورت جگہ تھی۔ گائوں چھوٹا تھا لیکن اچھا تھا۔ چند گھرانے تھے لیکن پیار تھا۔ زیادہ تر گائوں ان پڑھ تھا۔ پھر میرے نانا غلام حسن انگریز دور کے بنائے گئے گائوں سے دور ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر لگے تو گائوں کے بچوں کا پڑھائی کی طرف رجحان شروع ہوا۔ اگر آج پورا گائوں تعلیم یافتہ ہے تو اس میں میرے نانا صاحب کا بڑا ہاتھ ہے بلکہ وہ پورے علاقے کو تعلیم کی طرف لائے۔ روشن خیال دماغ ایسا تھاکہ اپنی بیٹی آمنہ کو 1960 کی دہائی میں لیہ کے اس دوردراز ریت کے ٹیلوں پر آباد گائوں سے لاہور پنجاب یونیورسٹی ماسٹرز کرنے بھیجا۔ آمنہ کو روز گائوں سے پانچ چھ کلومیٹر دور واقع سکول ساتھ لے کر جاتے۔ وہ لڑکوں ساتھ پڑھتی تھیں کیونکہ لڑکیوں کے لیے الگ سے سکول نہ تھا۔ (آج کل اپنی اس خالہ کی غیرمعمولی زندگی پر ریسرچ کرکے کہانی لکھ رہا ہوں جو 35 برس کی عمر میں فوت ہو گئی تھیں۔ میرا نام بھی انہوں نے ہی رکھا تھا)۔
ان بچوں کے والدین سارا دن تھل اور بیٹ کی زمینوں پر کام کرتے۔ واپسی پر گھر کیلئے سبزی مرچیں یا دودھ لے آتے۔ رات کو اس دودھ سے چائے کے دور چلتے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں محفلیں جماتے، بحث مباحثے ہوتے‘ رشتے ہوتے، وٹے سٹے ہوتے‘ لیکن پھر وقت کے ساتھ وہ سب بڑے یہاں قبرستان میں اپنی اپنی قبروں میں آباد ہوتے گئے۔ گائوں خالی ہوتا چلا گیا۔ جو کچھ مٹھاس تھی۔ کچھ پیار تھا۔ کچھ چاہت تھی۔ مروت تھی۔ کچھ لحاظ تھا۔ وہ سب ان بزرگوں کے قبرستان میں آ بسنے سے ختم ہوتا چلا گیا۔ ان کی جگہ ان کے پڑھے لکھے بچوں نے لے لی۔ کالج سے یونیورسٹی سے تعلیم لے لی۔ گائوں لوٹے توایسا فساد کھڑا کیا کہ اب گائوں جائوں تو حیرانی ہوتی ہے یہ وہی گائوں ہے؟
ہرکسی کے ہاتھ میں ایک فیتا ہے اور وہ زمین کی پیمائش میں مصروف ہے۔ کچھ قبروں پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ کبھی انہیں بھی لگتا تھا زمینیں کتنی اہم ہیں اور زمینوں کیلئے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ آخر میں وہی چند گز زمین ہی ملی تھی جس کیلئے ساری عمر دکھ اٹھائے۔ جوں جوں ہمارے گائوں میں تعلیم آتی گئی اور نوکریاں لگیں لالچ اور حرص بڑھتی چلی گئی۔ ہر گھر میں اب گاڑی ہے جہاں کبھی کسی کے پاس سائیکل ہونا بھی بہت بڑی بات ہوتی تھی‘ بلکہ مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے گائوں کے استاد غلام محمد صاحب نئی سائیکل خرید کر لائے تو پورا گائوں دیکھنے گیا تھا۔ گائوں میں پہلی موٹرسائیکل بھی مجھے یاد ہے جس کی اپنی دھاک تھی۔ اب ہر گھر میں بائیک ہے، ہر گھر میں دو دو نوکریاں ہیں، گاڑیاں ہیں، پکی کوٹھیاں ہیں، لیکن اب کوئی کسی سے بات نہیں کرتا کیونکہ اب سب پڑھ لکھ گئے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا زمین کا مرلہ عزیز لگتا ہے۔ سب کو لگتا ہے کہ اس کی زمین فلاں عزیز کھا گیا ہے۔ کزنز ایک دوسرے کے گربیان پکڑ کر کھڑے ہیں۔ جو ایک ہی گھر کی حویلی میں بچپن سے اکٹھے جوان ہوئے وہ اب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ انہیں لگتا ہے ان کے پاس ابھی بہت کچھ کم ہے۔ گائوں کی باہر سے ایک شکل تھی، خوبصورتی تھی وہ برباد کر دی گئی۔ سڑک سے لے گائوں تک دکانیں کھول دی گئی ہیں۔ ایک اڈہ بن گیا ہے۔
جب گائوں جائوں چند عزیز کاغذ لے کر آ جائیں گے کہ ابھی ان کے مرلے کم ہیں۔ فلاں کے پاس ہیں۔ وہ انہیں لے دوں۔ میں ہنس پڑا اور کہا: ایک کام کریں میرے حصے سے کاٹ لو تاکہ تم لوگوں کی لالچ اور حرص کو کچھ سکون ملے اور جو بستی پہلے ہی برباد ہورہی ہے شاید میرے چند مرلے دینے سے بچ جائے۔ جو پڑھ گیا ہے‘ جس کی نوکری لگ گئی‘ اس کی گردن میں سریا آ گیا ہے۔ اسے اچانک لگتا ہے وہ بہت سمجھدار ہوگیا ہے‘ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی تھی۔ میں چپ چاپ سنتا رہتا ہوں کہ ان کے باپ دادا کو نہیں لگتا تھاکہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی تھی لیکن انہیں لگتا ہے‘ ان کے باپ دادا بیوقوف تھے‘ یہ سب سمجھدار ہیں۔ یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ بہترین زمینیں انہیں ملیں لیکن اندر کی حرص اور لالچ ختم نہیں ہورہی۔ زمینوں کی یہ تقسیم آج سے چالیس سال قبل ان کے باپ دادا خوشی خوشی کرگئے تھے۔ چالیس سال بعد ان بزرگوں کی نسلیں اب ایک دوسرے پر تلواریں سونپ کر کھڑی ہیں۔ کزن ایک دوسرے کے نہیں رہے۔ بھائی بھائی کا نہیں رہا۔ رشتے داریاں ختم ہوئیں۔ آنا جانا بول چال ختم ہوئی۔ انہیں لگتا ہے‘ فلاں رشتے دار کے پاس زیادہ زمین ہے۔
گائوں میں جو قدیم گھر تھا جو اس گائوں کی آخری نشانی تھا اور جس پر اپنی بیسٹ سیلنگ کتاب ”گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ لکھی تھی وہ بھی آخرکار زمین بوس ہوا۔ ہر دفعہ گائوں جا کر اس قدیم کچے گھر کو دیکھتا تھاکہ اس سے اس گائوں کی تاریخ جڑی تھی۔ ہم سب کا ماضی جڑا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر میں آنکھیں بند کرکے ماضی کا سفر کرتا تھا۔ اس بار دیکھنے گیا تو وہ گرایا جا چکا تھا‘ وہاں نئی دکانیں بن رہی تھیں۔ یوں لگا جیسے دل پہ چھری چل گئی ہو۔ مجھے لگا آخری مزار گرا کر اس گائوں کو بھی دفن کر دیا گیا ہے۔ سب روایات اور سارا ماضی اس آخری پرانے اداس اور ویران گھر کے ساتھ دفن ہوا۔ اس گائوں کی آخری نشانی بھی اس گائوں کے چند مکینوں نے گرا دی تھی۔ وہ دو مرلے بھی گائوں کے پڑھے لکھے اور حرص کے مارے نوجوانوں نے نہیں رہنے دیے جنہیں لگتا ہے کہ انہوں نے راتوں رات امیر بننا ہے۔
قبرستان کے درمیان کھڑے ہو کر ڈھلتی شام میں‘ میں نے دور گائوں کو دیکھا جہاں اب آخری نشانیاں بھی ختم ہوگئی تھیں۔ مجھے اپنا آپ اجنبی لگا۔ سب کچھ پرایا پرایا لگا جہاں گائوں کا آخری مزار بھی لالچ اور حرص کی نذر ہوگیا تھا۔ ان کا سوچ کر افسردگی نے گھیر لیا جو زمینوں کیلئے لڑ رہے تھے‘ جنہیں یہ پتا بھی نہیں کہ آخر میں انہیں اسی قبرستان میں یہیں چند گز زمین میں ہی دفن ہونا ہے۔ عمر بھر کی تمام تر تھکاوٹ کے بعد آخر آرام کیلئے اسی چند گز زمین نے ہی کام آنا ہے۔