بچوں پر جسمانی تشدد کے خاتمے کا قانون دیرسے آیا لیکن درست آیا: اعظم نذیر تارڑ

بچوں کو ماردھاڑ یا زور زبردستی سے سکھایا نہیں جاسکتا، بچوں پر جسمانی تشدد کے خاتمے کا قانون دیرسے آیا لیکن درست آیا۔

ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں جسمانی سزاؤں کی ممانعت کے قوانین 2022 کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر قانون نے جسمانی سزاؤں سے ممانعت کے قانون کے نفاذ پر وزارت تعلیم کو مبارکباد پیش کی اور اس کے ساتھ ہی مہناز اکبر کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے یہ قانون پیش کیا اور اس کی منظوری ہوئی۔

وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویرحسین نے بھی اس موقع پر تقریب کے شرکاء سے خطاب کیا اور کہا کہ پچھلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ بچوں کو سیدھا کرنا ہے تو انہیں مارو لیکن وزیراعظم جب وزیراعلیٰ تھے تو پنجاب کے اسکولوں میں مار نہیں پیار کا پیغام عام کیا۔

وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ میں وزیرتعلیم ہوں لیکن بہت سے تعلیمی معاملات سے میرا تعلق نہیں ہے مگر پھر بھی جب صوبوں کے تعلیمی اداروں میں کچھ بھی ہو گالیاں مجھے پڑتی ہیں۔ پچھلے دنوں بھی اسپیشل بچوں کو استاد نے مارا اور سوشل میڈیا پر گالیاں مجھے پڑیں۔

انہوں نے عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، بچوں کی تربیت میں پہلے ماں باپ اور پھر اساتذہ کا کردار ہوتا ہے میری کوشش ہے کہ اسلام آباد میں بچوں کی جسمانی سزاوں کے خاتمے کے قانون نافذ کروں اور ہربچہ اسکول جائے۔

رانا تنویر نے مزید کہا کہ ہم دیگر صوبوں کو بھی خط لکھیں گے کہ بچوں کی جسمانی سزاوں سے ممانعت کے قانون کا نفاذ کریں اس قانون کو اپنائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے بچوں کو نہیں مارنا ویسے ہی وکلا، ججزکو بھی نہ مارا کریں، ججزکو مارنے سے نوجوانوں میں اچھا پیغام نہیں جاتا،

اس موقع پر گلوکار شہزاد رائے نے بھی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ جسمانی سزاوں کے خاتمے کا قانون بننے کا آغاز میں نے جیو نیوزکے پروگرام سےکیا تھا، جسمانی سزاوں کو کرمنلائز کرنے کی کوشش کئی سال سے جاری تھی ، اس طرح کے قوانین کا نفاذ خوش آئند ہے۔