ایک شہرِ قدیم کا نام خطرے میں ہے

ویسے تو اس ملک میں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے لیکن دھن حوصلہ اور جگرا ہے میرے عزیز دوست اور پیارے شہردار ایم این اے ملک عامر ڈوگر کا کہ جب یکم اپریل کو پاکستان کے سارے ارکان اسمبلی کو اپنے سیاسی مستقبل کے لالے پڑے ہوئے تھے ہمارے دلیر ایم این اے کو اس انتہائی پریشان کن صورتحال میں بھی دھڑا دھڑ افتتاحی تختیوں کی تنصیب اور سنگ بنیاد رکھنے کی جلدی پڑی ہوئی تھی۔ ایک طرف اسلام آباد میں ان کی حکومت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا اور ساری قوم عدم اعتماد کے نام پر ہونے والے جمہوری تماشے میں مصروف تھی دوسری جانب موصوف نے لگے ہاتھوں چار پانچ منصوبوں کے فیتے کاٹ کر اور تختیوں کی نقاب کشائی کرکے شہر میں پہلے سے لگی ہوئی اپنی بے شمار تختیوں میں مزید اضافہ فرما دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی ہر تختی پر، جس کا گھونگھٹ موصوف نے اٹھایا ہے‘ ان کے برادر خورد عدنان ڈوگر کا نام نامی لازماً درج ہوتا ہے۔ ان کے حلقے کی ہر گلی، ہر نالی، ہر سڑک، ہر پارک اور ہر گٹر حقیقی معنوں میں ”ڈوگر و ڈوگری‘‘ ہوا پڑا ہے۔ ان تختیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سات ہزار سال قدیم شہر کو محمد بن قاسم، سکھوں اور پھر انگریزوں کے بعد صرف اور صرف ڈوگروں نے فتح کیا ہے اور اس شہر کا سارا ترقیاتی کام اس خاندان نے گویا اپنے پلے سے کیا ہے۔ اس حلقے پر عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بننے والے ہر منصوبے پر ڈوگر خاندان کے نام کی تختی جگمگا رہی ہے۔
چلیں ملک عامر ڈوگر کی حد تک تو یہ بات طوہاً و کرہاً برداشت کی جا سکتی ہے کہ موصوف آج کل پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں اور اس حوالے سے فی زمانہ رائج ذاتی تشہیر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونے کا حق بھی رکھتے ہیں؛ تاہم یہ بات ابھی تک مجھ عاجز کی سمجھ میں نہیں آئی کہ شہر کے اس حلقے میں ڈوگر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے لگائی گئی ہر تختی پر ملک عدنان ڈوگر کا نام کس خوشی میں شامل ہوتا ہے؟ یہ شاید ہمارے جمہوری سیاست کے گراس روٹ لیول تک جانے کا ثمر ہے کہ ایم این اے کا برادر خورد بھی پبلک فنڈز سے بننے والے ہر منصوبے پر لگنے والی تختی میں شامل باجہ ہے اور لگتا ہے کہ یہ سارا پیسہ ہمارے ٹیکسوں سے نہیں بلکہ ڈوگر فیملی نے ذاتی اکاؤنٹ سے صرف کیا ہے۔ چلیں ان افتتاحی اور سنگ بنیاد والی تختیوں کی حد تک تو پھر بھی برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ پورے حلقے میں ہر نئے منصوبے کا نام اس خاندان کے افراد کے نام پر رکھنا لازمی قرار پا چکا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے اس سلسلے میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک فیصلہ بھی دیا تھا جس کے تحت پبلک فنڈز سے تعمیر ہونے والے منصوبوں کا نام عوامی نمائندے اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے نام پر نہیں رکھ سکتے‘ لیکن اس فیصلے پر کہیں بھی عمل نہیں ہورہا۔ پورے پاکستان میں یہی چلتا ہے اور جہاں جائیں وہیں پر ہرگلی، ہرسڑک، ہرپارک اور ہرنالی کی تعمیر پر اس علاقے کے متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے کے نام کی تختی لگی ہوتی ہے مگر ملتان میں تو حد ہی ہوگئی ہے۔ آدھے شہر پر مشتمل اس حلقہ این اے 155 کی ہرگلی کی نکڑ پر اسی ایک خاندان کے نام کی تختی ”لشکیں‘‘ مار رہی ہے‘ اور اس پر ایم این اے کے بھائی کے نام کا دُم چھلا بھی لگا ہوا ہے۔
یکم اپریل کو جب دنیا بھر میں لوگ دوسروں کو احمق اور بیوقوف بنانے کیلئے اپریل فول منانے میں مصروف تھے میرے اس پیارے ایم این اے دوست کو ملک میں لگے سیاسی اپریل فول میلے میں فارغ بیٹھنے کے بجائے افتتاحوں کی سوجھی چنانچہ انہوں نے اسلام آباد سے ملتان دوڑ لگائی اور یہاں پہنچ کر ایک عدد ٹھیکیدار، دو تین مزدور، آٹھ دس چمچے، تین بوریاں سیمنٹ، دو رہڑیاں ریت اور چار پتھر کی تختیاں پکڑیں اور چل پڑے منصوبوں کا از خود افتتاح کرنے۔ شاید انہیں اس لیے جلدی تھی کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو ان لاوارث منصوبوں کا افتتاح کون کرے گا‘ لہٰذا انتہائی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے تین اپریل سے تین روز قبل ہی صبح صبح انہوں نے ریڈیو پاکستان ملتان پر ہلہ بول دیا، وہاں ایک عدد آڈیٹوریم کا افتتاح اور ایک عدد لِفٹ کی تنصیب کے سنگ بنیاد کا مرحلہ طے کیا۔ دنیا بھر میں ریڈیو سٹیشن بڑی بڑی عمارتوں سے دو دو کمروں میں منتقل ہو رہے ہیں اور بڑی بڑی عمارتیں ریڈیو سٹیشن کیلئے غیر ضروری ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں کروڑوں روپے کی ملکیت سے ایک آڈیٹوریم کی تعمیر سوائے پیسے کے ضائع اور قومی دولت کو برباد کرنے کے اور کچھ نہیں۔ ملتان شہر کے مہنگے ترین علاقے میں چار ایکڑ سے زائد زمین پر چار منزلہ یہ عمارت پہلے ہی ضرورت سے زیادہ ہے اور اس کا بیشتر حصہ فارغ اور خالی پڑا ہوا ہے۔ اس عمارت کی چوتھی منزل پر کبھی پی ٹی وی کے دفاتر ہوتے تھے جو اب پی ٹی وی کی اپنی عمارت بن جانے کے بعد خالی پڑے ہیں۔ تیسری منزل پر اکادمی ادبیات پاکستان کا ریجنل آفس اور پی آئی ڈی کا دفتر ہے اور ریڈیو پاکستان ان دونوں اداروں سے دفاتر کا کرایہ وصول کرتا ہے۔ ریڈیو پاکستان ملتان کو قائم ہوئے باون سال ہو چکے ہیں اور آج تک دو سو افراد پر مشتمل کوئی تقریب نہیں ہوئی مگر اب اچانک یہاں دو سو افراد کا آڈیٹوریم بننا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی لاگت تین کروڑ روپے ہے اور یہ میرے دوست ایم این اے کے والد ملک صلاح الدین ڈوگر کے نام پر ہے۔ لفٹ پر لگنے والے ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ اس کے علاوہ ہے۔
موصوف نے دوسرا ہلہ انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان کے ریلوے پھاٹک پر مجوزہ فلائی اوور پر بولا اور عمران خان فلائی اوور کا علامتی افتتاح فرما دیا۔ وہاں سے فراغت پا کر وہ ملتان کے سابق ذبح خانے پہنچے اور اس جگہ پر ایک گرلز ہائی سکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس گرلز سکول کا نام بھی انہوں نے اپنے والد مرحوم کے نام پر رکھ دیا۔ پھر وہاں سے دوڑ لگائی اور افشار روڈ کی کارپٹنگ کا افتتاح فرمایا اور اپنے نام کے ساتھ اپنے بھائی کے نام کی تختی لگا کر شتابی سے فارغ ہوگئے۔ اس سے قبل وہ ملتان میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والے پارک کا نام اپنے چچا ملک لیاقت ڈوگر کے نام پر رکھ چکے ہیں۔ ایک اور پارک‘ جس کا نام انہوں نے اپنے مرحوم بھائی کے نام پر ملک عمران ڈوگر پارک رکھا ہے‘ کیلئے ایک کروڑ روپے منظور کروا چکے ہیں۔ میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ستر لاکھ روپے کی لاگت سے ان کے ایک اور چچا ملک شوکت ڈوگر کے نام کا پارک زیر تعمیر ہے۔ نہ ہینگ لگی اور نہ پھٹکڑی تاہم ڈوگروں کا رنگ چوکھا چڑھ رہا ہے۔ ملتان کے قدیمی ڈیرہ اڈا چوک کا نام بھی انہوں نے اپنے والد کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے بہرحال مجھے لحاظ آرہا ہے۔
اسی اثنا میں اسمبلی ٹوٹ گئی اور اہلیان ملتان ڈوگروں کے ناموں سے بننے والے مزید پروجیکٹس سے بچ گئے لیکن اب پھر اسمبلیاں بحال ہوگئی ہیں۔ شہر کے نام کی تبدیلی کی ہمارے ہاں پہلے بھی ایسی مثال موجود ہے۔ منڈی ڈھاباں سنگھ کا نام بھی بدل کر ملک صفدر ڈوگر عرف چھبا ڈوگر کے نام پر صفدر آباد رکھا جا چکا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، چھبا ڈوگر کے نام سے آپ کو موصوف کے بارے میں اندازہ تو ہو ہی چکا ہوگا۔ خدا ہی خیر کرے کہیں جاتے جاتے موصوف اس سات ہزار سال قدیم شہر کا نام ہی اپنے کسی مرحوم عزیز کے نام پر نہ رکھ دیں۔