اقتدار کی جاری جنگ

مملکت ِ خداداد‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقتدار کی جنگ زوروں پر ہے۔ فریقین میں سے جس کے ہاتھ جو کچھ آتا ہے‘ اٹھا کر دوسرے کے سر پر مار دیتا ہے۔ہر ایک نے اپنی جیبیں پتھروں سے بھر رکھی ہیں‘اور اپنی غلیلوں سے ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے پر تلا ہوا ہے یہ اور بات کہ اکثر نشانے خطا جا رہے ہیں یا حریف کو وہ نقصان نہیں پہنچا پا رہے‘جو نشانہ باز کی خواہش ہے۔ چاند پر تھوکا تو منہ کو آتا ہی تھا‘ لیکن اب چاند بھی اپنے اپنے ہیں‘اور تھوک بھی اپنا اپنا۔ ہر شخص نے اپنا اپنا چاند چڑھا رکھا ہے‘ اور دوسرے کے چاند پر تھوک ماری کر رہا ہے‘لیکن چاند اپنا ہویا دوسروں کا‘اُس کا تھوک پلٹ کر آتا ہے‘اور تھوکنے والے کو زد میں لے لیتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے‘ تو دیکھا نہیں جاتا‘ آنکھیں بھر بھر آتی ہیں۔آگے دیکھنے کی کوشش کریں تو تا حدِ نظر دھند پھیلی ہوئی ہے۔اندھا دھند چلنے والے البتہ سر پٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان(سابق اور موجودہ کی تمیز نہیں) کے دفتر میں ہونے والی گفتگوئیں لیک ہو رہی ہیں۔ان کی ریکارڈنگز میڈیا پر سنائی جا رہی ہیں‘کہنے والے کہتے ہیں کہ140 گھنٹے کی گفتگوئیں‘ جن کا حجم آٹھ جی بی کا ہے‘ ہیک کر لی گئی ہیں۔ مبینہ ہیکر ساڑھے تین ملین ڈالر طلب کر رہا ہے کہ یہ اس کو ادا کر دیے جائیں‘ تو ان آوازوں کو میٹھی نیند سلا دے گا‘ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ایک ایک کر کے انہیں منظر عام پر لایا جائے گا‘اور اقتدار کی جنگ لڑنے والوں کے ہاتھ میں وہ اسلحہ دے دیا جائے گا‘ جس سے وہ ایک دوسرے کو نشانہ بنائیں۔اداروں کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے‘ شخصیات کا مذاق بنایا جا رہا ہے‘ اور واقعات کو من مانی تعبیرات دی جا رہی ہیں‘حقائق کو توڑا مروڑا جا رہا ہے‘سفارتی مراسلے کو مرضی کے معانی پہنائے جا رہے ہیں‘کھیلنے کے منصوبے بن رہے ہیں‘سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ریاستی نقصانات کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔ جو کچھ منظر عام پر آ چکا ہے‘ وہی خون کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے‘جو کچھ منظر عام پر آنے والا ہے‘وہ کس کس کا اور کس کس طرح خون کرے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ایک عام پاکستانی تو یہی سوچ رہا ہے کہ اس کو کیا فائدہ پہنچے گا‘اس کے ہاتھ کیا آئے گا؟ سب کچھ کالا کرنے سے پہلے یہ سراغ لگایا جانا چاہیے کہ ٹیپ کرنے والے کون تھے‘کہاں چھپے ہوئے تھے‘ اور کس کے حکم پر یہ کھیل کھیل رہے تھے۔وزیراعظم ہائوس کو کس نے غیر محفوظ بنایا اور کس نے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کا لطف اٹھایا؟
اقتدار کے رسیا دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں‘لیکن مہذب ممالک میں ان کی دوڑ دھوپ کے لیے قواعد و ضوابط وضع کر لیے گئے ہیں۔نظام کوئی بھی ہو‘ اقتدار تک پہنچنے اور اسے تبدیل کرنے کا طریقہ اس میں موجود ہوتا ہے‘جو ملک جمہوری کہلاتے ہیں‘انہوں نے ووٹ کی طاقت کو فیصلہ کن تسلیم کر رکھا ہے۔ مقررہ مدت کے بعد لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران چنتے ہیںخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر انہیں تبدیل کر سکتے ہیں۔برسوں پہلے جس کام کے لیے جنگیں لڑنا پڑتی تھیں‘ شہزادے ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے‘ اب باقاعدہ سرکاری اہتمام میں اطمینان سے ہو جاتا ہے۔ ہر چار یا پانچ سال بعد نیا حکمران اقتدار سنبھال لیتا ہے اسے صدر کہہ لیجیے یا وزیراعظم کا نام دے لیجیے یا کسی اور نام سے یاد کر لیجیے‘ اختیار اس کے پاس آ جاتا ہے‘ اور ہارنے والا نئے انتخابات کا انتظار کرنے لگتا ہے۔پاکستان بھی ایک دستوری مملکت ہے‘ ایسی مملکت جس کا نظم ایک تحریری دستور کے تحت چلایا جاتا ہے۔اس میں ایک ایک تفصیل درج کر دی گئی ہے۔ ایک ایک ادارے کے فرائض اور ذمہ داریاں کھول کر بیان کردی گئی ہیں۔اس مملکت کے رہنے والوں کو ہر پانچ برس بعد اپنے حکمران چننے کا حق حاصل ہے‘ہر شخص اور ادارے پر ان کی تعظیم واجب ہے‘کوئی بھی ان کی حکم عدولی کا استحقاق نہیں رکھتا۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں جس کو اکثریت حاصل ہو‘ وہ حکومت بناتا اور اقتدار حاصل کر لیتا ہے‘جس شخص کو پارلیمنٹ کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ رہے وہ اقتدار میں نہیں رہ سکتا‘اسے حزبِ اختلاف کی بنچوں پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اس کے باوجود یہاں آپا دھاپی اور افراتفری ہے‘ تو کیوں؟یہ سوال ہر ادارے‘ اور ہر شخص کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ اپنے اپنے گریبان کو ٹٹولنا چاہیے؟ پاکستانی ریاست دستور کے مطابق کیوں نہیں چلائی جا رہی؟ ہر شخص اور ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کیوں نہیں کر رہا؟ دوسروں کے دائرے میں دخل اندازی کو اپنا فرضِ منصبی کیوں قرار دے لیا گیا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب تلاش نہ کیا گیا‘اور اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مشق جاری رہی‘ تو پھر ہر ایک کو ہاتھ ملنا پڑیں گے؟ ہم تو اپنی مملکت کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتے ہیں‘پھر اقتدار کی جنگ لڑتے ہوئے نہ اسلام یاد رہتا ہے‘ نہ جمہوریت‘ دونوں کے اصول نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔کرکٹ کے میدان میں ہاکی‘اور ہاکی کے میدان میں کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی۔یہ بات یاد کیوں نہیں رہتی‘یاد کیوں نہیں رکھی جا رہی؟
یہ درست ہے کہ ہماری تاریخ میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر فخر نہیں کیا جا سکتا۔ہم سے ایسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جنہوں نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔اقتدار کی جنگ لڑنے والوں نے ملک کو اقتدار پر قربان کر رکھا ہے۔ہمیں ایسے زخم لگائے ہیں جن سے خون اب تک رس رہا ہے۔ ہم پرانے ناٹک نئے سرے سے رچانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ آگ سے آگ بجھائی نہیں جا سکتی‘ خون سے خون دھویا نہیں جا سکتا‘نیا زخم لگا کر پرانے زخموں کو مندمل نہیں کیا جا سکتا۔ صدیوں کی محنت سے حاصل کرنے والی متاع لمحوں میں ضائع ہو سکتی ہے۔ ٹانگ ایک لمحے میں ٹوٹ تو سکتی ہے‘ ایک لمحے میں جڑ نہیں سکتی‘قومیں افراد پر قربان نہیں کی جاتیں‘افراد قربان ہوتے اور شہید کہلاتے ہیں‘زندگی دے کر زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں۔
”عاشق مست جلالی‘‘
جناب محمد اظہارالحق شاعر ہیں‘کالم نگار ہیں‘ایک بڑے سرکاری افسر رہے ہیں‘انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔کئی زبانیں بول اور لکھ سکتے ہیں‘ان کی شاعری کے کئی مجموعے چھپ چکے‘اور ان کے اخباری کالم بھی دلوں میں جگہ بنا چکے‘ان کے لہجے کا شاعر اور کالم نگار تلاش کرنا ممکن نہیں۔لاکھوں نہیں کروڑوں میں ایک ہیں‘بلکہ یہ کہیے کہ پورے پاکستان میں ایک … گائوں میں پیدا ہوئے‘دنیا دیکھ لی‘ لیکن گائوں نہیں چھوڑا‘اسے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔”عاشق مست جلالی‘‘ کے نام سے ان کے کالموں کا مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ یہ ان کے ایک کالم کا عنوان بھی ہے‘ اور اس حقیقت کا اعلان بھی کہ ان کا گائوں ان کے اندر آج بھی زندہ ہے۔اس کی ثقافت انہیں آج بھی یاد آتی اور تڑپاتی ہے۔ کچا گھر اور وہ سارے لوگ جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چراغوں کی روشنی میں رقص کیا کرتے تھے‘اور کانوں میں علن فقیر کی آواز زندہ ہو ہو جاتی تھی‘ عاشق مست جلالی ہو۔اس عاشق مست جلالی المعروف بہ محمد اظہار الحق کی تحریریں بچھڑے زمانوں اور آنے والے وقتوں کی نقیب ہیں۔یہ اُس وقت تک زندہ رہیں گی‘ جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ان کی جرأتِ اظہار قابلِ رشک ہے‘ اور قابلِ داد بھی … ہر کالم نگار کو ان کی تحریریں ” ٹیکسٹ بک‘‘ کی طرح پڑھنی چاہئیں‘ان کی معنویت اور لذت کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور