گھبرائی ہوئی اشرافیہ!

اشرافیہ گھبرائی ہوئی، سکتے میں، کچھ چھپائے چھپ نہیں رہا، ایک ایک کر کے پردے ہٹ رہے، ایک ایک کرکے سب بے نقاب ہو رہے، ننگا پن ایسا، گھن آرہی، ٹیکنالوجی، میڈیا نے ہر دھونس، ہر دھاندلی، ہر خوف، ہر رازداری کا سوا ستیاناس کر دیا، ہزاروں میل دور روسی صدر کے ساتھ براجمان، مائیک سے کھیلتے شہباز شریف ابھی پیوٹن کے پاس ہی بیٹھے تھے کہ پوری دنیا میں ان کا شاہکار آڈیو کلپ کورونا کی طرح پھیل گیا، شہباز شریف بحیثیت وزیراعظم اپنے عدالتی مفرور بھائی کو لندن میں ملیں، وہ شور مچے کہ سارے غلاموں کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھونڈی بھونڈی تاویلیں دینا پڑ گئیں، شہباز شریف، بلاول بھٹو، وزیروں سمیت امریکہ میں مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہریں، وہ شور مچے کہ شہباز شریف، بلاول بھٹو، وزیروں سب کو ہوٹل اخراجات اپنی جیبوں سے دینا پڑیں، حالانکہ کل تک ان کی برتھ ڈے پارٹیوں، کتوں کی خوراکوں، نوکروں، چاکروں کے خرچے بھی سرکاری خزانہ اٹھا رہا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہورہی تھی، کبھی آئینی ترمیم ہوجاتی تھی اور پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ اس ترمیم کے پیچھے کس کے کون سے مفادات چھپے ہوئے، آج حالت یہ، فل اسٹاپ کامہ بدلے، ہر کوئی تہہ تک پہنچ جائے، کبھی جس کا دل چاہتاتھا بڑی خاموشی سے ملک، قوم ، جمہوریت کے نام پر جتنا بڑ ایوٹرن مارلیتا ،آج کوئی چھوٹی سی ’یوٹرنی‘ بھی مارے، میڈیا اس کے پچھلے بیانات، فرمودات سناسنا، دکھا دکھا کرنیم پاگل کردے، یہ نہیں کہ ٹیکنالوجی، میڈیا کے خوف سے اشرافیہ گھرو ں میں بیٹھ گئی، توبہ تائب ہو گئی، نہیں بالکل نہیں، وہ مسلسل اپنی کارروائیوں میں لگی ہوئی، ابھی بھی بھٹو، ضیاء کی باقیات ایک ہوکر اقتدار کے مزے ملک، قوم، جمہوریت کی چھتری تلے چھپانے میں لگی ہوئی، ابھی دن دہاڑے بے شرمی سے مجرموں، ملزموں اور ان کے وکیلوں نے اپنے کیسوں کو سامنے رکھ کر نیب ترامیم کر لیں، وزیراعظم جہاز میں جانے والے اسحٰق ڈار وزیراعظم کے جہاز میں واپس آ چکے، نواز شریف کی واپسی، سزائیں، نااہلی خاتمے کی راہیں ہموار ہو رہیں، واشنگ مشین آن، دھلائی،ستھرائی جاری، لانڈری 24گھنٹے کھلی ہوئی، داغ مٹائے جا رہے، یہ نہیں اشرافیہ کچھ کر نہیں رہی، سب کچھ کر رہی، مگر آج سوال اتنے، اعتراضات اتنے، شور اتنا، اشرافیہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کا احساس، آسان لفظوں میں اقتدار بنا عزت کے، فتح بنا اخلاقی برتری کے۔

اشرافیہ گھبرائی ہوئی، سکتے میں، کچھ چھپائے چھپ نہیں رہا، ایک ایک کرکے پردے ہٹ رہے، ایک ایک کرکے سب بے نقاب ہورہے، ننگا پن ایسا، گھن آ رہی، گزرے 5مہینوں کولے لیں، اتنا کچھ لیک ہوا کہ ملک لیکو لیک ہو گیا، تازہ تازہ آڈیو عمران خان، ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا، اعظم خان کی سفارتی مراسلے کو سازش میں ڈھالنے کی منصوبہ بندی، شرمناک، عمران خان کا کہنا، اس پر کھیلتے ہیں، شرمناک، وہ میر جعفر، میر صادق، وہ سازشی بیانیہ، وہ غداری کے فتوے، شرمناک، ایک آڈیو سابق خاتون اول کیلئے ہیرے کی انگوٹھی ارینج ہو رہی، ایک آڈیو ،ایک بزنس ٹائیکون زرداری صاحب سے کہہ رہے عمران خان بہت اصرار کررہا آپ سے صلح کیلئے، ایک آڈیو، سابق خاتون اول اپنے سوشل میڈیا ہیڈ سے کہہ رہیں ،جو الزام لگائے ،جو مخالف ،اسے غدار بنادو، ایک آڈیو، شوکت ترین پنجاب، کے پی کے وزرائے خزانہ کو ایسا خط لکھنے کا کہہ رہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ ٹوٹ جائے مطلب ملک جائے بھاڑ میں ، ایک ثاقب نثار کی آڈیو اور وہ رانا شمیم کا حلف نامہ، یہ آج کی ٹیکنالوجی، میڈیا کا ہی دباؤ کہ مسلم لیگ سندھ لائرز ونگ کے نائب صدر، جنہیں نوازشریف نے جج بنوایا، جو نوازشریف کے وکیل رہے، جن کی حلف نامے سے پہلے مبینہ طور پر لند ن میں دوملاقاتیں حسین نواز اور ایک ملاقات نوازشریف سے ہوئی، جنہوں نے جب 10نومبر 2021کو لندن میں حلف نامہ لکھا تو انہیں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن ) کے لوگ خود نوٹری پبلک دفتر لے گئے اور وہ جن کا سواتین سال کی خراٹے مارتی گہری نیند کے بعد اچانک ضمیر جاگا، وہ رانا شمیم اپنے حلف نامے سے پھر چکے، عدالت سے معافی مانگ چکے، کاش عدالت انہیں معاف نہ کرے، کاش عدالت سچ تک پہنچے، اصل کرداروں کو نشانِ عبرت بنائے، یہاں جیسے یہ خواہش کہ اوپر بتائی گئی تمام آڈیوز اور جسٹس قیوم آڈیو، یونس حبیب آڈیوز، جسٹس جاوید اقبال آڈیو، ویڈیوز سمیت سب کی مکمل تحقیقات ہوں، جو قصور وار انہیں عبرتناک سزائیں ملیں، وہاں خواہش یہ بھی کہ جج ارشد ملک آڈیوز ،ویڈیوزکی بھی مکمل تحقیقات ہوں، نجانے مجھے کیوں یہ یقین کہ اگر جج ارشد ملک کی آڈیو ز، ویڈیوز کی مکمل، غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو گئیں تو کہانی وہ نہیں رہے گی جو سنائی گئی۔

اشرافیہ گھبرائی ہوئی، سکتے میں، کچھ چھپائے نہیں چھپ رہا، ایک ایک کرکے پردے ہٹ رہے، ایک ایک کرکے سب بے نقاب ہورہے، ننگا پن اتنا، گھن آرہی، وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعظم ہاؤس، مریم نواز کی 3آڈیو ز آچکیں، جہاں یہ دکھ کہ اب وزیراعظم کا ٹیلی فون محفوظ نہیں، وزیراعظم ہاؤس محفوظ نہیں، جہاں یہ دکھ ’ڈارک ویب سائٹ‘ پر ہمارا 2سو گھنٹوں کا ریکارڈ پڑا ہوا، جہاں یہ دکھ ڈارک ویب سائٹ پرا س ریکارڈ کی بولیاں لگ رہیں، جہاں یہ دکھ کہ نجانے ابھی آگے کیا کیا آنے والا، کون سی جگ ہنسائی ہماری منتظر، پاکستان اور کتنا تماشا بنے گا، وہاں دکھ یہ بھی کہ ہمارے بڑے اصل میں کتنے چھوٹے، مریم نواز اپنے داماد کیلئے بھارت سے مشینری، داماد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پاور پلانٹ کی ڈیوٹیاں وزیراعظم ہاؤس میں لگا رہیں، شرم کی بات یہ، ایسا محسوس ہورہا جیسے پورا وزیراعظم ہاؤس جاتی امراء کا ملازم ،شرم کی بات یہ بھی، بات دامادوں تک پہنچ چکی، یہ کلاسیکی مثال دولت بذریعہ سیاست کی، ایک آڈیو میں مریم نواز شہباز شریف سے کہہ رہیں انکل آپ پیٹرول کی قیمتیں بڑھائیں، یہ وہی مریم جو پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر فرمائیں، یہ ظلم، مجھے بہت دکھ، نواز شریف تو راتوں کو سو نہیں پاتے، ایک اور آڈیو میں مریم نواز شہباز شریف سے کہہ رہیں، آپ عمران خان کا ہیلتھ کارڈ بند کر دیں، آگے سے شہبازشریف فرما رہے، ہاں میں فنڈز کی کمی کا بہانہ کر کے بند کر دوں گا، ایک آڈیو میں ایاز صادق فرما رہے، جن جن پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہ کرنے ہوں ان کے بارے میں کہہ دیں گے کہ ان کے دستخط ٹھیک نہیں، اس کے علاوہ پرویز الٰہی کے بارے میں گفتگو، چیف الیکشن کمشنر کا ذکر اور نجانے کیا کیا، کیا منافقت ہے، کیا چتر چالاکی، کیا جھوٹا اور دوغلا پن، سوچئے کیا یہ سب 90کی دہائی میں نہیں ہو رہا ہو گا، یقیناً ہو رہا ہو گا مگر تب یہ ڈیجیٹل دور نہیں تھا، تب یہ ٹیکنالوجی، یہ میڈیا نہیں تھا، تب سب کچھ ہوتا اور پردوں میں ہی رہ جاتا تھا مگر آج نہیں تبھی تو اشرافیہ گھبرائی ہوئی، سکتے میں، کچھ چھپائے نہیں چھپ رہا، ایک ایک کرکے پردے ہٹ رہے، ایک ایک کر کے سب بے نقاب ہو رہے، ننگا پن ایسا، گھن آرہی۔