پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مردم شماری کے معاملے پر منقسم

حکمران اتحاد پی ڈی ایم حکومت کے اندر آئندہ عام انتخابات تازہ مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کرانے کے حوالے سے تقسیم پائی جاتی ہے۔

محکمہ شماریات سے کہا گیا تھا کہ وہ مردم شماری 2023ء کے نتائج مشترکہ مفادات کونسل میں منظوری کیلئے پیش کرے۔ پیر کو محکمے کی جانب سے باضابطہ طور پر اس ضمن میں وزارت پلاننگ کو پیش کردی گئی۔

یہ سمجھا جارہا تھا کہ سی سی آئی یہ معاملہ دو اگست تک اٹھا سکتی ہے۔ تاہم، پی ڈی ایم کے اندر اس معاملے کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم کی وجہ سے معاملات سست روی کا شکار ہیں۔

حتیٰ کہ اس ایشو پر نون لیگ کی بھی ایک رائے نہیں ہے۔ اس نمائندے نے جب وزارت پلاننگ کے ایک سینئر عہدیدار سے منگل کو رابطہ کیا کہ تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ محکمہ شماریات کی طرف سے متذکرہ درخواست آئی ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ڈیجیٹل مردم شماری مکمل ہوچکی ہے اور اس کا آڈٹ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اب اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ احسن اقبال کی زیر قیادت مردم شماری مانیٹرنگ کمیٹی کے سپرد کیا جائے اور کمیٹی کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ مردم شماری کے نتائج مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جائیں یا نہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جیو نیوز پر سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھجوانا ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں پیر کو بات چیت کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ 2018ء میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ آئندہ الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت کا تقاضہ ہے کہ معاملہ دبانے کی بجائے مردم شماری کے نتائج سی سی آئی میں بھیج دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سی سی آئی مردم شماری کی منظوری دیتی ہے تو صوبوں میں حلقہ بندیاں تبدیل ہوں گی جس میں الیکشن کمیشن کو 6 سے 8 ہفتے لگ سکتے ہیں۔

تاہم، انہوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ غیر معینہ تاخیر کا امکان نہیں۔ تاہم، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تازہ مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کیے جائیں گے اور آئندہ الیکشن پرانی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔

جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جب اسمبلیاں تحلیل ہوں گی تو الیکشن کمیشن پرانی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا پابند ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سی سی آئی نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کرے گی تو انہوں نے کہا کہ چونکہ اس میں ’’ایشوز‘‘ ہیں اسلئے حکومت مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کئی اسٹیک ہولڈرز کو بھی اس معاملے پر تحفظات ہیں۔ اس کے برعکس، حکمران اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی آبادی کی درست گنتی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی وقت پر الیکشن چاہتی ہے۔

یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ 12 اگست کو ختم ہونے والی موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے 60 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔ اگر مشترکہ مفادات کی کونسل 2023 کی مردم شماری کے نتائج کو منظور کرتی ہے تو انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔

اگرچہ وزیر قانون کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں تاخیر 6؍ سے 8؍ ہفتوں سے زیادہ نہیں ہوگی، تاہم الیکشن کمیشن کے ذرائع کا اصرار ہے کہ تازہ مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے عمل میں چار ماہ لگیں گے۔

اس کا مطلب ہے کہ انتخابات میں کم از کم چار ماہ کی تاخیر ہو گی۔ آئین کے مطابق، سی سی آئی سے مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد عام انتخابات لازمی طور پر نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہونا ضروری ہے۔