ماضی مستقبل کا آئینہ ہوتا ہے

مملکتِ خداداد پاکستان میں جہاں بے شمار موضوعات ایسے ہیں کہ آپ اپنے قلم کو خواہ چاقو کی طرح چلائیں یا چھری کی مانند‘ کوئی پوچھنے والا نہیں‘ لیکن دوسری طرف کچھ موضوعات ایسے بھی ہیں جہاں آپ کو اپنے قلم کی نوک کو کند کرنا پڑتا ہے۔ اب کیا کریں ان موضوعات پر لکھتے ہوئے بعض اوقات تو اتنی احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ نہ صرف لکھنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ قارئین کو شدید غصہ آتا ہے کہ کیا ڈرپوک اور بزدل آدمی ہے کہ کھل کر لکھنے کا نہ حوصلہ ہے اور نہ جرأت۔ اسی طرح کے ایک کالم پر ایک قاری نے طنز کے تیر چلاتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور لکھا کہ آپ بزدل ہیں اور آپ میں پورا سچ لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ میں نے جواباً لکھا کہ بھائی صاحب! آپ اپنا اخبار نکالیں اور مجھے اس اخبار میں لکھنے کی سعادت بخشیں۔ میں ایسے کالم لکھوں گا کہ آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔ تھوڑی بہادری اور دلیری آپ بھی دکھائیں اور صرف چھاپنے کا حوصلہ کر لیں باقی کام میرا ہے۔ آپ کو مزہ نہ آئے تو پھر کہیے گا‘ میرے اس پیارے قاری کا پھر جواب نہیں آیا۔
اصل مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب کھل کر لکھنے کا تصور اور معیار آسمان کو چھو رہا ہے۔ یہ معیار سوشل میڈیا نے سیٹ کیا ہے جہاں ہر طرح کے لکھنے کی آزادی بلکہ ”مادر پدر‘‘ آزادی ہے اور یار لوگوں نے کھل کر لکھنے کا معیار سوشل میڈیا کو بنا لیا ہے۔ ظاہر ہے جب معیار ایسا ہو کہ نہ کوئی پوچھ تاچھ ہو اور نہ ہی کوئی ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ہو‘ نہ کوئی ایڈیٹر ہو اور نہ ہی کوئی ریگولیٹری اتھارٹی‘ نہ کوئی ذمہ دار ہو اور نہ ہی کوئی جوابدہ‘ نہ کوئی سزا ہو اور نہ کوئی قانونی رکاوٹ۔ بس ہاتھ میں سمارٹ فون ہو اور لکھنے کی کھلی چھٹی ہو تو بھلا پھر اس لکھے کا مقابلہ کوئی پرنٹ میڈیا پر کیسے کر سکتا ہے؟ ہمارے ہاں ہر پوسٹ کو آگے فارورڈ کر کے انقلاب برپا کرنے والے ان انقلابیوں کا مقابلہ ہم کہاں کر سکتے ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ بھی فیک ناموں سے چلا رہے ہوتے ہیں۔ اندازہ کریں جو لوگ اپنے اکاؤنٹ پر اپنے ماں باپ کا دیا ہوا نام بھی نہیں لکھ سکتے وہ دوسروں کو بزدلی اور کم ہمتی کے طعنے دیتے ہوئے اس معاشرے میں گمنام پوسٹیں فارورڈ کر کے انقلاب کے دعویدار ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ کم از کم یہ عاجز تو ان سے بہادری اور دلیری میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دوسرے لکھنے والوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ‘اس لئے وہ جانیں اور سوشل میڈیا والے انقلابی جانیں۔ اس فقیر کو اور بہت کام ہیں۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے فرمایا کہ ججوں کو سکینڈلائزنہیں کیا جانا چاہئے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ واقعتاً ججوں کو سکینڈلائز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس سے لوگوں کا پہلے تو ججوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور پھر یہ انفرادی رویہ اجتماعی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پوری عدلیہ اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے سے جب عدل و انصاف اور قانون کی عملداری کا احساس ختم ہو جائے تو اس معاشرے کے تار و پود بکھر جاتے ہیں اور معاشرہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو ہم تقریباً اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی کو میری بات سے اتفاق نہیں تو پھر یوں کہہ لیں کہ اگر حالات یونہی چلتے رہے تو ہم جلد ہی اس مرحلے پر پہنچ جائیں گے۔
کافی پرانی بات ہے ملتان میں دوستوں کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا اور وہاں ججوں کی سلیکشن کے طریقہ کار پر بات ہو رہی تھی۔ ایک سینئر وکیل فرمانے لگے کہ آپ میری بات سے یہ مطلب نہ نکال لینا کہ میں کسی آمر یا آمریت کی تعریف کرنے جا رہا ہوں صرف ایک واقعہ سنا رہا ہوں۔ ملتان کے ایک بڑے مشہور وکیل جو ملتان ڈسڑکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ‘ ان کے والد بھی ملتان کے ایک نامور وکیل تھے۔ ایوب خان کا دورِ حکومت تھا اور ان کا نام بطور جج تعیناتی کی منظوری کیلئے ایوب خان کے سامنے پیش ہوا۔ ساتھ ایک رپورٹ لف تھی کہ ان کا طرزِ زندگی ان کی ظاہر کردہ ذرائع آمدنی سے میل نہیں کھاتا۔ ایوب خاں نے تعیناتی کیلئے آنے والی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ مجھے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار پر کچھ نہیں کہنا۔ اس پر کہنے کیلئے بندے کو سوشل میڈیا پر ہونا چاہیے جہاں وہ فیک نام سے کچھ بھی لکھ لے؛ تاہم اس دنیا میں ہر معاملے پر بہتری کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ دنیا میں ججوں کی تعیناتی کیلئے اَن گنت طریقہ ہائے کار اور قواعد موجود ہیں۔ غلطیوں کے امکان سے بالکل پاک طریقہ تو شاید کہیں بھی نہ ہو مگر اسے کم سے کم کرنے اور حتی الامکان حد تک شفاف اور سکینڈلائز ہونے سے بچانے کیلئے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں جو طریقہ ہائے کار اپنائے جا رہے ہیں ہمیں ان کو من و عن نہ سہی‘ مگر ان سے کچھ نہ کچھ رہنمائی ضرور لینی چاہئے۔اب یہ نہ ہو کہ مجھ پر امریکہ سے ذہنی طور پر مرعوب و متاثر ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جائے؛ تاہم میں یہ کہے بغیر نہیں رہوں گا کہ مستقبل میں ججوں کوسکینڈلائز ہونے سے بجانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بندے کو جج بننے سے پہلے ہی چھان پھٹک لیا جائے اور اسے آئندہ کیلئے انصاف کی کلین چٹ دینے سے قبل اس کے ماضی کے حوالے سے پوری طرح کھنگال لیا جائے تواسے مستقبل میں بطور جج کسی قسم کے مسئلے سے حتی الامکان حد تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں سپریم کورٹ کا جج ریٹائر نہیں ہوتا۔ وہ تاحیات سپریم کورٹ کے جج کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ کوئی شخص امریکہ میں ایک بار سپریم کورٹ کا جج بن جائے تو اس کی رخصتی کے تین طریقے ہیں: وہ ذہنی یا جسمانی طور پر اس قدر مفلوج ہو جائے کہ فرائضِ منصبی ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ وہ از خود اس ذمہ داری سے مستعفی ہو جائے اور تیسرا یہ کہ وہ وفات پا جائے۔ لیکن اس کی تعیناتی کا طریقہ کار خاصا دلچسپ ہے۔ 1790ء میں امریکی سپریم کورٹ کے قیام کے بعد ججوں کی تعداد میں چھ بار تبدیلی ہوئی اور بالآخر 1869ء میں یہ تعداد نو قرار پائی۔ ایک چیف جسٹس اور آٹھ ایسوسی ایٹ جسٹسز۔ اب تک کل 103 ایسوسی ایٹ جسٹسز اور سترہ چیف جسٹس اس عہدے پر رہ چکے ہیں اور امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی اوسط مدت ملازمت سولہ سال ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج کی نامزدگی صدر امریکہ کرتا ہے؛ تاہم اس کی منظوری اور توثیق سینیٹ آف امریکہ کرتی ہے‘ اور یہی اس سارے طریقہ کار کی اصل روح ہے۔
نامزد جج کا سارا ماضی سینیٹ میں زیر بحث آتا ہے اور اس کا جی بھر کر پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ سینیٹ میں جج کی نامزدگی کی توثیق سے متعلق تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صدر امریکہ کے نامزد کردہ جج کے ساتھ ایک آدھ بار تو ایسا بھی ہوا کہ دورانِ بحث اس کی نجی زندگی سے متعلق ایسی ایسی باتیں اور ایسے ایسے سکینڈل سامنے آئے کہ وہ اپنی نامزدگی سے از خود دستبردار ہو کر بھاگ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی جج کو عہدے پر متمکن ہونے کے بعد اسے سکینڈلائز ہونے سے محفوظ رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ اس کے جج بننے سے پہلے اس پرکھل کر بحث کر لی جائے۔ اس کا ماضی اگر اس قابل ہے کہ اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہو سکے تو یقین ہے کہ اس کا مستقبل بھی نیک نامی سے مزین ہوگا۔ آپ کا ماضی آپ کے مستقبل کا آئینہ ہوتا ہے۔