وزیراعظم کی سالانہ ایک ہزار ارب بچانے کی کوشش، گزشتہ کفایت شعاری کمیٹی کی سفارشات نظرانداز رہیں

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اپنی گزشتہ حکومت کے دوران تشکیل دی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے سالانہ 1000؍ ارب (ایک ٹریلین) روپے کی بچت کیلئے کفایت شعاری کے جامع اقدامات تجویز کیے تھے، لیکن اس کمیٹی کی بیشتر تجاویز کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔

اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ بیوروکریٹ ناصر محمود کھوسہ کی زیر قیادت اس کمیٹی میں 15؍ ارکان تھے۔ وزیراعظم نے بدھ کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جسے ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے عملی منصوبہ تجویز کرے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سات رکنی کمیٹی کے اکثر ارکان اُسی سابقہ کفایت شعاری کمیٹی میں بھی شامل تھے جس کی تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

نئی تشکیل دی گئی کمیٹی کی صدارت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کے پاس ہے جبکہ دیگر ارکان میں سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری کابینہ ڈویژن، سیکریٹری صنعت و پیداوار راشد محمود لنگڑیال ، قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل ہیں۔ گزشتہ کمیٹی نے 2023کے اوائل میں اُس وقت کی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

کمیٹی میں نہ صرف سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری کابینہ، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل تھے بلکہ یہ کمیٹی زیادہ طاقتور بھی تھی کیونکہ اس میں اس وقت کے وزیر مملکت برائے خزانہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خزانہ، وزیراعظم کے خصوصی معاون افیکٹیو نیس، وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ اور تمام چیف سیکریٹریز بھی شامل تھے۔

2023ء کی اس کمیٹی نے جامع کفایت شعاری کے اقدامات کی سفارش کی تھی جن پر عمل ہوتا ہے تو سبسڈیز کے200ارب روپے، ترقیاتی بجٹ سے200ارب روپے، سول حکومت چلانے کے اخراجات سے 55 ارب روپے، سنگل ٹریژری اکاؤنٹ سے 60؍ سے 70؍ ارب روپے جبکہ بچت کے دیگر اقدامات سے 100؍ ارب روپے کی بچت ہوتی۔ اس کے علاوہ نان اسٹریٹجک سرکاری کمپنیوں (اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) کے ذیلی اداروں اور اثاثہ جات کی فروخت اور غیر جنگی دفاعی بجٹ میں15؍ فیصد کٹوتی سے 174؍ ارب روپے کی بچت ہوتی۔

اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ کمیٹی کا مقصد وسط مدتی اقدامات کے ذریعے سالانہ ایک ہزار ارب روپے کی بچت کو یقینی بنانا ہے۔ کمیٹی نے یہ رپورٹ پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کی تھی، جنہوں نے اس کمیٹی کی بیشتر سفارشات کو نظر انداز کرکے کچھ حصوں پر عمل کیا تھا۔

سابقہ کمیٹی کی رپورٹ کے اختتام میں لکھا تھا کہ ’’سفارشات پر عمل مشکل کام ہوگا لیکن ملک کے مالی حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات، بالخصوص جنہیں سرکاری فنڈز دیے جاتے ہیں، کفایت شعاری کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔

کمیٹی کی بہت سی سفارشات کو فوری طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر کو درمیانی مدت میں لاگو کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘

ذیل میں سابقہ کمیٹی کی سفارشات پیش کی جا رہی ہیں:کابینہ زیادہ سے زیادہ 30؍ ارکان پر مشتمل ہونا چاہئے، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں 15فیصد کٹوتی، تمام وزارتوں، ڈویژنوں، منسلک محکموں، ماتحت دفاتر، خود مختار اداروں اور صوبائی حکومتوں کے محکموں کے موجودہ اخراجات میں15؍ فیصد کمی لائی جائے گی ، ریکرنٹ بجٹ کو منجمد کیا جائے گا، ہر طرح کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی، کسی بھی عہدے یا ادارے یا کیڈر کے مخصوص یا ایڈمزبل الاؤنس میں25؍ فیصد کمی، دو سال کیلئے نئے انتظامی یونٹس (ڈویژن، اضلاع، سب ڈویژن، تحصیل) کے قیام پر مکمل پابندی؛ تمام سرکاری ملازمین کے سیکورٹی پروٹوکول پر نظرثانی اور اس میں بڑی حد تک کمی کی جائے۔

نئی بھرتیوں پر مکمل پابندی؛ صوابدیدی گرانٹس / سیکرٹ سروس فنڈ (آئی ایس آئی اور آئی بی کیلئے استثنیٰ) کو منجمد کیا جائے؛ غیر ملکی سفر، پوسٹنگ اور دوروں سے متعلق تمام سہولتوں کا فنانس ڈویژن اور کیبنٹ ڈویژن خارجہ امور ڈویژن کی مشاورت سے جائزہ لے گا۔ فنانس ڈویژن کے زیر غور پنشن اصلاحات کو 30جون 2023تک حتمی شکل دی جائے گی۔

زیادہ سے زیادہ پنشن (بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں) بہر صورت ماہانہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ نہ دی جائے،3سال سے خالی تمام آسامیاں ختم کی جائیں۔ سفارت خانوں کیلئے مختص بجٹ میں 15فیصد کمی کی جائے گی۔

لگژری گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اگر کوئی پابندی نہیں ہے تو، بھاری ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس نافذ کیا جائے، سرکاری اہلکاروں کی طرف سے اسپیشل یوٹیلیٹی وہیکلز (ایس یو ویز) کا استعمال بند کیا جائے، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروسز سے وابستہ افراد کیلئے تمام مراعات مثلاً گاڑیاں، سیکیورٹی، سپورٹ اسٹاف اور یوٹیلیٹی ختم کی جائیں، کابینہ ڈویژن ایسے اداروں کی نشاندہی کرے گا جو ایک جیسے کام کرتے ہیں.

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن اور کابینہ ڈویژن آئینی مینڈیٹ کے مطابق وزارتوں/ ڈویژنوں/ منسلک محکموں/ ماتحت دفاتر/ خود مختار اداروں/ اتھارٹیز کی تعداد کو معقول سطح پر لانے یا کم کرنے کریں گی، بلاتفریق تفریحی الاؤنس میں بھاری کمی کی جائے گی، غیر ملکی سفر صرف ضروری حالات میں کی جائے گا، تمام سبسڈیز کا ہدف صرف اور صرف غریب ترین افراد ہونا چاہئیں، صوبے اپنے اپنے عوام کیلئے سبسڈیز اور گرانٹس میں حصہ ڈالیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے معاملے میں اور ٹیوب ویلوں، کھاد، بجلی پر سبسڈیز کے حوالے سے دیکھیں تو ان سے مستفید ہونے والوں کا بڑا حصہ صوبوں سے ہے، لہٰذا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بتدریج بنیادوں پر شراکت داری یا شیئرنگ میکانزم تیار کیا جا سکتا ہے۔

گندم کی سبسڈی ٹارگیٹڈ ہونا چاہئے اور اس میں نجی شعبے کا کردار زیادہ ہونا چاہئے، بجلی اور گیس کیلئے پری پیڈ میٹرنگ متعارف کرائے جائیں، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شامل نہ کیا جائے، ماسوائے پانی، توانائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور غریب دوست منصوبوں کے۔

جاری/منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور صرف انتہائی اہم اور ناگزیر/ممکنہ منصوبوں کی تکمیل کی طرف بڑھا جائے، وفاقی حکومت صرف ان ترقیاتی منصوبوں کو فنڈز دے جو اس کے آئینی دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔1985سے عوامی نمائندوں (ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز اور سینیٹرز) کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کا موجودہ نظام ختم کیا جائے۔

تجارتی سرگرمیاں انجام دینے والی سرکاری کمپنیوں(اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) کو دوسرے انتظامات میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ایسی سرکاری کمپنیوں کو سبسڈی نہ دی جائے جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ غیر جنگی دفاعی بجٹ میں 15فیصد کمی کی جائے گی۔

سنگل ٹریژری اکاؤنٹ، جس پر فنانس ڈویژن نے کام شروع کیا ہے، فوری طور پر نافذ کیا جائے؛ اسپیشل اکاؤنٹس کا اچھی طرح سے جائزہ لیا جائے؛ گھر سے ایک دن کا کام کا نظام متعارف کرایا جائے جس میں دفاتر میں صرف ضروری عملہ موجود ہو، دن کی روشنی کی بچت کو متعارف کرایا جانا چاہئے؛ ملک بھر کی مارکیٹیں رات 8بجے بند؛ توانائی کی بچت کرنے والے برقی آلات استعمال کیے جائیں۔ سول سرونٹ/ سرکاری ملازمین، جوڈیشل آفیسرز اور یونیفارمڈ سروسز کیلئے صرف ایک پلاٹ کی اجازت ہے۔

پہلے سے الاٹ شدہ ایک سے زیادہ پلاٹ اور اضافی اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کر کے انہیں نیلام کیا جائے، صوبوں میں پروگریسو پراپرٹی ٹیکس متعارف کرایا جائے۔ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی کے یونٹس کو مونیٹائز کیا جائے۔