ہجرتوں کا موسم آن پہنچا

آخر وزیراعظم عمران خان کو احساس ہو ہی گیا کہ ملک میں جس طرح ہاؤسنگ سوسائٹیز پھیل رہی ہیں انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دینا ہے۔ایک وزیر نے بتایا کہ پچھلے کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کرنے کے اختیارات فوری طور پر ڈویژنل کمشنر سے لے کر صوبائی کابینہ کو دیے جائیں تاکہ ہر کوئی اُٹھ کر ہر شہر یا قصبے میں سوسائٹی نہ بنا لے۔خصوصاً زرعی زمینیں دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کرنے کا اختیار صوبائی کابینہ کے پاس ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کتنے سیریس ہیں کیونکہ ابھی تو وہ لاہور میں اس میگا پراجیکٹ کا اجلاس کر کے آئے ہیں جس کے تحت ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین پر نیا شہر بسایا جارہا ہے‘ یوں ہزاروں کسان دربدر ہوں گے اور شہروں کا رخ کر کے مزید مسائل پیدا کریں گے۔پہلے ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کی ہتھیلیاں گرم کر کے کام کیا جاتا تھا ‘ اب ذرا بڑے لیول پر صوبائی کابینہ یہ کام کیا کرے گی اور وزیروں کی چاندی ہو جائے گی۔
جس طرح پاکستان کے شہروں کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ کسی شہر سے گزریں گندگی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ ادارے اور ان میں بیٹھے لوگ کام کرنے کو تیار نہیں۔ کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او اپنے ضلع میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس نے بچے لاہور رکھے ہوئے ہیں۔جمعرات کو وہ لاہور کے لیے نکل پڑتا ہے۔ اسے ہر ضلع سے اتنی ہی دلچسپی ہے کہ وہاں سے وہ کس کس پراجیکٹ سے کیا کچھ کما سکتا ہے تاکہ لاہور میں فیملی کو سپورٹ کر سکے یا کینیڈا میں سیٹل بچوں کو خرچہ بھیج سکے۔ اس سے بڑھ کر اسے ضلع یا وہاں کے لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ مجھے بتائیں لاہور کے کسی افسر کو راجن پور کا ڈی پی او یا ڈپٹی کمشنر لگ کر اس ضلع کی ترقی میں کیا دلچسپی ہوگی؟ وہ فیلڈ پوسٹنگ اس لیے کرنا چاہتا ہے کہ یہ اس کی پروموشن کی requirement ہے ورنہ پروموشن اس کے بغیر ہوسکتی تو وہ کبھی راجن پور یا مظفرگڑھ یا لودھراں نہ جائے۔ اس لیے ہر شہر برباد ہوا ہے کہ کسی نے ان شہروں کو own نہیں کیا‘ انہیں اپنا گھر نہیں سمجھا ‘جس کی صفائی ستھرائی کو وہ ترجیح دیتے اور زرعی زمینوں پردھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کی اجازت نہ دی جاتی۔
اس برس پاکستان نے دس ارب ڈالرز کی چینی‘ گندم‘ دالیں اور کاٹن باہر سے منگوائی ہیں تاکہ خوراک کی ضروریات پوری کر سکیں۔ یہ دس ارب ڈالرز وہ ہیں جو ہم کبھی خود کماتے تھے جب دنیا کو ہم گندم‘ چینی‘ کاٹن بیچتے تھے۔ اب ہم دنیا کے سب سے بڑے خریدار ہیں اور یہ سب کچھ چند برسوں میں ہوا ہے۔ تین سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ہم گندم اور چینی میں خود کفیل تھے۔ ماشااللہ ایسے فیصلے خان صاحب اور انکے وزیروں نے کئے ہیں کہ گندم اور چینی خود اربوں کی سبسڈی دے کر باہر بھجوا دی اور مہنگے داموں‘ ڈالرز کے مہنگے قرضے لے کر واپس منگوائی ۔ ابھی کابینہ میں ہی انکشاف کیا گیا کہ ایک برس میں چار ارب ڈالرز کے کمرشل قرضے مختلف بینکوں سے لیے گئے جن کی منظوری 21 دسمبر کے کابینہ اجلاس میں دی گئی۔ ان قرضوں سے گندم اور چینی خریدی گئی تاکہ ملک میں قلت نہ ہو۔ اس ملک کے ساتھ کیسا کھلواڑ ہوا کہ جن چیزوں میں ہم خودکفیل تھے وہ زرعی زمینیں تباہ کر کے باہر سے منگوا رہے ہیں۔ شہباز شریف نے ساہیوال جیسے زرخیز زرعی علاقے میں کئی ایکڑ پر کوئلے کا پلانٹ لگا دیا۔چین نے جو مبینہ طور پر پلانٹ خود بڑھتی آلودگی کی وجہ سے بند کیے وہ ہمیں اٹھا کر قرضے پر دے دیا اور اپنا منافع کھرا کر لیا۔ پتہ چلا کوئلے کی امپورٹ پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ آلودگی الگ۔ ایسے پلانٹ ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں لیکن اگر ساحلی علاقوں میں لگتے تو پھر شہباز شریف بھلا کس کو دکھاتے کہ دیکھو میں نے زرعی زمین تباہ کر کے کوئلے کا پلانٹ لگا دیا۔
سب شہروں کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔کچھ دن پہلے لاہور جانا ہوا تو اندازہ ہوا کہ شہر کی حالت مزید بگڑ گئی ہے۔ دو تین برس پہلے ایک سٹڈی نظر سے گزری کہ چند برس میں پنجاب کے تین شہروں‘ لاہور‘فیصل آباد اور گوجرانوالہ سے لوگ ہجرت کر جائیں گے۔ بتایا گیاکہ جتنی تیزی سے ان شہروں میں فضائی آلودگی پھیل رہی تھی اس کے بعد یہاں لوگوں کا رہنا مشکل ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ لاکھوں لوگ شہر چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟ مجھے اس وقت یہ گپ لگی تھی لیکن دو تین برسوں کے اندر یہ گپ حقیقت کا روپ دھار گئی ‘ لوگ اب لاہور سے نکلنے کا سوچ رہے ہیں۔ اکبر چوہدری امریکہ سے آئے اور چند دن لاہور گزارنے کے بعد ان کا گلا پکڑا گیا‘ کہنے لگا کہ اب وہاں نہیں رہا جاتا لہٰذاہما علی شاہ اور عامر متین کے پاس اسلام آباد آگئے۔ میرا کزن یاسر نواز اسلام آباد آیا ہوا تھا‘ کہنے لگا: لاہور میں رہنا دن بدن مشکل ہورہا ہے‘ آلودگی اور سموگ نے جینا حرام کر دیا ہے۔ آنکھوں میں جلن اپنی جگہ اب تو گلا بھی پکڑا جارہا ہے۔ کہنے لگا: سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔ میں نے کہا: اسلام آباد شفٹ ہو جائو‘ جو پہلے ہی آبادی کے بوجھ تلے پس رہا ہے۔ ایف سکس سپر مارکیٹ میں کیفے پر گیا تو واش روم کو تالا لگا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ پانی ہی نہیں مل رہا۔ اندازہ کریں یہ اسلام آباد کی اہم مارکیٹ ہے جہاں پانی نہیں ملا رہا اور ابھی شہر پھیل رہا ہے بلکہ ایف نائن پارک کے سامنے بڑے بڑے پلازے بن رہے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں جب ایف سکس کے مکینوں یا مارکیٹس کو پانی نہیں مل رہا تو اس نئے بلیو ایریامیں ہزاروں اپارٹمنٹس اور دکانداروں کو کہاں سے ملے گا؟ ہزاروں گاڑیاں اچانک اسلام آباد شہر میں آگئی ہیں۔ شہر میں تو اب چلنے کی جگہ نہیں رہی‘ گاڑی تو الگ بات ہے۔جب ایف نائن پارک والا بلیو ایریا چالو ہوگا تو مزے پھر آون گے۔
دو تین سال پہلے جب اسلام آباد نیا ایئرپورٹ شروع نہیں ہوا تھا اُس وقت آپ لاہور موٹر وے کی طرف جاتے تو آپ کو ہر طرف ہریالی نظر آتی تھی۔ اب زرا جا کر دیکھیں‘ ایئرپورٹ کے راستوں کے دونوں اطراف ہاوسنگ سوسائٹیز اور اونچی عمارتوں اور پلازوں کی بھرمار ہے۔ جس آبادی کی وجہ سے ایئرپورٹ شہر سے باہر نکالا گیا تھا وہ دو سال کے اندر اندر ایئرپورٹ تک پھیل گئی ہے۔ اس طرح آپ پشاور موٹر وے پرجائیں تو ہر طرف ہائوسنگ سوسائٹیز کے جال بچھ چکے ہیں۔ اب مری کا رخ کریں تو ایکسپریس وے پر سرسبز پہاڑوں کو گنجا کر کے وہاں بھی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا لی گئی ہیں۔ ان طاقتور بلڈرز کی دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی پہاڑوں کو گنجا کرنا شروع کر دیا ہے۔
یاسر پوچھ رہا تھا کہ لاہور چھوڑ کر کدھر جائیں؟ میں نے ہنس کر کہا: اسلام آباد آجائو۔ وہ بولا: جو اسلام آباد کا احوال آپ بتا رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ خود آپ کو بہت جلد ہجرت کی ضرورت پیش آنے والی ہے کیونکہ یہاں بھی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پاکستان کا آخری خوبصورت شہر بھی دھیرے دھیرے اسی طرح بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے جیسے کراچی اور لاہور۔لگتا ہے ان بڑے شہروں سے انسانوں کی ہجرت کا موسم بہت جلد آنے والا ہے۔ زرعی زمینیں اور سرسبز باغ تو سوسائٹیز کھا گئیں ‘ اب انسانوں کو سموگ اور آلودگی کھا رہی ہے۔
قدیم زمانوں کے کھنڈرات دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کہ اچانک کیا تباہی نازل ہوئی ہوئی کہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ شہروں کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیتی آلودگی‘ سموگ اور بدلتے موسموں کے خوفناک تیور دیکھ کر اب اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم انسان کیونکرہنستی بستی بستیاں چھوڑ جاتے ہوں گے۔