حال پتلا ہے!

کل چودھری بھکن اور شاہ جی آگے پیچھے تشریف لے آئے۔ یہ کوئی طے شدہ آمد نہیں تھی۔ دونوں بلا اطلاع آئے۔ چودھری نے آتے ہی کڑک دودھ پتی کی فرمائش کردی۔ ابھی اس کی فرمائش کی تکمیل بھی نہیں ہوئی تھی کہ شاہ جی تشریف لے آئے۔ جب یہ دونوں حضرات اکٹھے ہوں تو بندہ صرف خاموشی سے ان کی گفتگو سنتا ہے۔ سیاسی گفتگو تو عام دنوں میں بھی چودھری بھکن اور شاہ جی کی پسندیدہ گفتگو ہوتی ہے‘ کجا کہ آج کل کی صورتحال ہو۔
ابھی چودھری نے چائے کی پہلی زوردار سُڑکی لگائی ہی تھی کہ شاہ جی نے سوال داغ مارا کہ چودھری! یہ بتاو‘ تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟ چودھری نے پہلے شاہ جی کو بڑی طنزیہ نظروں سے دیکھا‘ پھر کہنے لگا: شاہ جی! خیر تو ہے آپ جیسا دانا اور عقلِ کل قسم کا آدمی مجھ جیسے بیوقوف اور احمق سے ایسی مشکل قسم کی باتیں پوچھ رہا ہے؟ شاہ جی نے بڑے اطمینان سے سر ہلایا اور کہنے لگے: سیانے کہتے ہیں‘ کبھی کبھی احمق اور بیوقوف آدمی سے بھی سوال کرنا چاہئے کہ ممکن ہے وہ غلطی سے ہی کوئی عقلمندی کی بات کہہ دے۔ بس میں نے سیانوں کے اسی قول کی پاسداری کرتے ہوئے تم سے یہ سوال پوچھ لیا۔ کیا خبر آج اس قول کی تصدیق بھی ہو جائے ۔ چودھری شاہ جی کی بات پر ہنسا اور کہنے لگا: اچھا! یہ بات ہے تو پھر سنو‘ لیکن پہلے میری ایک بات کا جواب دو۔ شاہ جی ہمہ تن گوش ہو گئے۔
”یہ بتائو کہ سینیٹ میں آج کل کس کی اکثریت ہے؟‘‘ شاہ جی کہنے لگے: اپوزیشن پارٹیوں کی ہے۔ اس اپوزیشن سے تمہاری کیا مراد ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: اس اپوزیشن سے مراد مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام سمیت گیارہ اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل اتحاد ہے۔ چودھری کہنے لگا: اللہ تمہاری خیر کرے۔ اب یہ بتائو یہ گیارہ کی گیارہ جماعتیں جو سینیٹ میں اکثریت کی حامل ہیں سوائے حفیظ شیخ والے معاملے کے کبھی کامیاب ہوئی ہیں؟ کوئی ایک واقعہ سنائو جس میں اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل یہ اکثریتی اتحاد کبھی اپنی عددی برتری کے باوجود کسی گنتی میں اپنی یہ عددی اکثریت ثابت کرسکا ہو؟ حتیٰ کہ یہ اکثریتی اتحاد تو اپنی عددی برتری کے باوجود چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہار گیا تھا۔ جو پارٹیاں وہاں کبھی نہ جیت سکی ہوں جہاں انہیں اکثریت حاصل ہے‘ وہ وہاں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں جہاں وہ ویسے ہی اقلیت میں ہیں۔
شاہ جی نے پہلے تو نہایت متاثر ہو جانے والے انداز میں سرہلا کر چودھری کو داددی پھر کہنے لگے: اچھا چودھری یہ بتا کہ آخر حکومت کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کے بل بوتے پر وہ اقلیت ہوتے ہوئے بھی سینیٹ میں گنتی ہو تو جیت جاتی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل یہ اکثریتی اتحاد ہربار خوار و خستہ ہوتا ہے اور جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتا ہے۔ سینیٹ کی کون سی ووٹنگ ہے جس میں یہ اکثریت کے باوجود رسوا نہیں ہوئے؟
شاہ جی ایک لمحے کیلئے رکے اور پھر چودھری کو مخاطب کرکے پوچھنے لگے: آخر کیا وجہ تھی کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود کسی بھی نازک موقع پر وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکے؟ یہ محض اتفاق تو نہیں تھاکہ ہربار انہی کے ووٹ ضائع ہو جائیں۔ ہربار انہی کے ارکان کی مہریں غلط لگ جائیں اور ہربار انہی کے بندے غیرحاضر ہو جائیں۔ ان سارے حسین اتفاقات کا بندوبست کون کرتا تھا؟ ڈوریاں کون ہلاتا تھا اور پردہ غیب سے امداد کون فراہم کرتا تھا؟ اگر تم ان طاقتوں کو جانتے ہوتو پھر تمہیں اپنے سارے تھیسس کی حقیقت کا بخوبی علم ہوگا۔ اس ملک کی سیاست میں یا ڈوریاں ہلتی ہیں یا پیسہ چلتا ہے۔ اخلاقیات، اقدار اور اصولوں کی باتیں صرف کہنے کی حد تک ٹھیک ہیں‘ حقیقت میں ہماری سیاست میں ان چیزوں کا نہ کوئی وجود ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت۔ اب تم خود اندازہ لگا لو کہ یہ جو پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ چل رہا ہے اس میں جو پیسہ لگ رہا ہے وہ کون لگا رہا ہے؟ چودھری کہنے لگا۔ لگانا کس نے ہے‘ سب مل جل کر خرچ کر رہے ہوں گے۔ ارکان اسمبلی، ٹکٹ ہولڈر اور آئندہ الیکشن لڑنے کے امیدوار لوگ۔ یہ سب خرچ کر رہے ہوں گے ۔ شاہ جی زور سے ہنسے‘ پھر پوچھنے لگے: چلو یہ بتائو کہ سندھ سے آتے ہوئے جب اس لانگ مارچ کے شرکا ملتان میں ٹھہرے تھے تو ان کا خرچہ کس نے اٹھایا ہوگا؟ چودھری کہنے لگا: ملتان شہر کی پیپلزپارٹی نے خرچہ اٹھایا ہوگا۔ گیلانی صاحب نے حصہ ڈالا ہوگا۔ جاوید صدیقی نے نوٹ خرچے کئے ہوں گے۔
شاہ جی کہنے لگے: چودھری! تمہیں یاد ہے تیس نومبر 2020 کو ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوا تھا۔ چودھری نے سر ہلاکر اس بات کی تصدیق کی۔ شاہ جی کہنے لگے: اس جلسے میں شرکت کیلئے پیپلز پارٹی کے جو کارکن اور جیالے دوسرے شہروں سے آئے تھے ان کے رات سونے کا بندوبست ملتان والوں کے ذمے تھا۔ تیس نومبر کی رات کو خاصی سردی ہوتی ہے۔ کارکنوں کیلئے بستروں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ یہ بستر واٹر ورکس روڈ پر سابقہ خیام سینما کے ساتھ واقع ایک بستر ہائوس سے کرائے پر لئے گئے تھے۔ جلسہ ہوگیا، لوگ واپس گھروں کو چلے گئے مگر یہ بستر کرائے پر دینے والا بعد میں کئی دن تک گیلانی ہائوس میں جا کر اپنے بستروں کے کرائے کا تقاضا کرتا رہا اور اسے بڑی مشکل سے کافی دنوں بعد یہ کرایہ ملا تھا‘ تب ہزار بارہ سو کے لگ بھگ بستروں کے کرائے کا معاملہ تھا اور بستروں کی فراہمی کرنے والے کو کرایہ وصول کرنے میں دانتوں پسینہ آ گیا تھا‘ لیکن اس بار سندھ سے آنے والے اس لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد کے پیش نظر پچاس ہزار لوگوں کا بندوبست درکارتھا۔ پانچ سولوگ فی مارکی اور باقی متوقع اضافی کارکنوں کیلئے بندوبست کرتے ہوئے ایک سو بیس مارکیز لگائی گئی تھیں۔ وی آئی پی مہمانوں کی مختلف کیٹگریز تھیں۔ ان کیلئے ان کی حیثیت کے مطابق چالیس گھروں اور ہوٹلوں میں بندوبست تھا۔ باقی خرچے چھوڑو، صرف مارکیز میں ٹھہرنے ، ناشتے اور کھانے کی مد میں ایک ہزار روپے فی کس کے حساب سے ادائیگی کی گئی تھی جو مبلغ پانچ کروڑ روپے بنتی تھی۔ ان شرکا کیلئے عارضی باتھ رومز کے بندوبست پر مزید ڈیڑھ کروڑ روپے لگے تھے۔ ہوٹلوں کا خرچ علیحدہ تھا۔ ملتان میں اس سارے بندوبست پرسات آٹھ کروڑ لگے تھے۔ اگر گیلانی صاحب یا جاوید صدیقی کے ذمے ہوتے تو اب تک شہر میں رقم وصول کرنے والوں کی بانگیں سنائی دے رہی ہوتیں‘ مگر کوئی بندہ ادھار کی وصولی کیلئے چکر لگاتا نظر نہیں آ رہا۔ اس بار سب کچھ نقد یا ایڈوانس پر ہوا ہے۔ شنید ہے‘ اس بار ساری رقم کا بندوبست خود زرداری صاحب نے کیا ہے۔ زرداری صاحب ایسے معاملات میں خرچ کرنے کے سلسلے میں کھلے ہاتھ کے قائل ہیں۔ تو بھلا وہ خرید و فروخت کے باقی معاملات میں کیسے کنجوسی کریں گے ؟
شنید ہے ڈوریاں کھینچنے والے غیر جانبدار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کی یقین دہانی کروا رہی ہے‘ اور پیپلز پارٹی کے گُرو آصف علی زرداری پیسہ پھینک، تماشا دیکھ والے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اینڈ کمپنی کے پاس فی الحال دینے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ نہ کارکردگی، نہ زور زبردستی کرنے والے اور نہ ہی مناسب جوڑ توڑ کرنے والے۔ باقی جتنے لوگ بھی ہیں وہ طعنے مارنے، جگتیں کرنے یا بدکلامی کرنے کے علاوہ اور کسی کام کے نہیں۔ لے دے کر دو لوگ تھے جو اے ٹی ایم کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ خیر سے وہ الگ گروپ بنائے بیٹھے ہیں۔ مختصر یہ کہ حال پتلا ہے۔