’’آنکھ کا تارا، اعترافی بیان دہائیوں تک تعاقب کرے گا‘‘

وزارت عظمیٰ کا بھرپور عرصہ گزارنے کے بعد شہباز شریف یوم آزادی کے یادگار دن وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہوگئے ان کے اس منصب پر’’متمکن‘‘ اور رخصت ہونے کے دونوں مواقع یادگار رہیں گے لیکن ’’ اسٹیلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ان کا یہ ’’اعترافی بیان‘‘ کئی دہائیوں تک ان کے تعاقب میں رہے گا۔

’آئینی طریقے‘ سے آنے اور ’’باوقار طریقے‘‘ سے رخصت ہونے والے وزیراعظم نے یہ بیان کیوں دیا؟ اتحادی جماعتوں کے سربراہ اور خود مسلم لیگی زعما بھی بیان سے پریشان اور اضطراب کا شکار ہیں۔

10 اپریل2022 کو جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی جانیوالی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو یہ ملک کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی وزیراعظم کو ایوان کے ارکان نے آئینی طریقے سے عدم اعتماد کرکے ایوان سے فارغ کردیا اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو قائد ایوان (وزیراعظم) منتخب کرلیا۔

پھر کم و بیش 16 ماہ کی حکومت کے اختتام پر انہیں چودہ اگست کے یادگار دن پورے تزک واحتشام سے رخصت کیا گیا۔ اس تمام عرصے میں ان کی حکومتی کارکردگی، سیاسی سرگرمیاں، عدالتوں میں کامیابیاں بیرون ممالک کے دورے اور بالخصوص ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات میں سروخرو ہونے سمیت بے شمار ایسے امور ہیں جنہیں یاد رکھا جائیگا۔

اس کے ساتھ ساتھ ان کے وزارت عظمیٰ کے دور میں جن اقدامات سے عوام براہ راست بری طرح متاثر ہوئے خاص طور پر ان کی 16 ماہ کی حکومت میں جس ظالمانہ شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا عوام اسے شاید ہی فراموش کرسکیں گے اور اس کے اثرات کا عوامی سطح پر یقیناً مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کے موقعہ پر سامنا کرنا پڑیگا۔