پھر وہی حلقہ این اے157

اب بھلا اس دل کا کیا کیا جائے؟ میں خود لندن میں ہوں مگر دل ملتان میں پھنسا ہوا ہے۔ ملتان کے ساتھ اس فقیر کا وہی رشتہ ہے جو خواجہ غلام فرید کے بقول
میڈا عشق وی توں
میڈا یار وی توں
ایک بیٹی امریکہ میں ہے‘ دوسری آسٹریلیا میں اور باقی دونوں بچے میرے ساتھ ادھر لندن میں ہیں لیکن دل ہے کہ ملتان میں اٹکا ہوا ہے۔ مجھے گمان ہی نہیں یقین ہے کہ ملتان پہنچ کر دو دن بھی آرام سے ملتان میں نہیں بیٹھوں گا اور کہیں کسی اور طرف نکل پڑوں گا مگر یہ تسلی بھلا کیا کم ہے کہ ملتان پہنچ گیا ہوں۔ سارے رخصت ہو جانے والے پاک مائی کے قبرستان میں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ابدی نیند سو رہے ہیں اور جو حیات ہیں وہ تقریباً سب کے سب ملتان میں ہیں حتیٰ کہ جو یار دوست ملتان بلکہ پاکستان سے باہر ہیں ان کی غالب اکثریت بھی وہ ہے جن سے تعلق ملتان میں ہی بنا تھا۔ ادھر برطانیہ میں سعید ظفر‘ احسان شاہد‘ اسد مشتاق تو ایسے ہیں جو زمانہ طالب علمی سے اس عاجز کے دل میں بستے ہیں۔ طہٰ قریشی اور شیخ اشرف سے تعلق بھی اسی شہر ِدلدار کے حوالے سے ہے۔ شکیل احمد‘ خبیب خان‘ وقاص بٹ‘ ندیم سعید‘ عارف انیس‘ عابد گیلانی‘ طاہر واسطی‘ نصر اقبال‘ فخر اقبال‘ درجن بھر یونیورسٹی کے دوست اور ملتان کے دوستوں کے بچے اور لنگوٹیے دوست ندیم گجرکا بیٹا ۔ ان سب سے وہی معاملہ ہے جو چچا غالب کو لاحق تھا۔ مرزا نوشہ کا فرمانا ہے کہ
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
سو یہی حال ملتان چھوڑ کر دیارِغیر میں بس جانے والوں کا ہے‘ جن سے اس شہر کی نسبت کے حوالے سے جو تعلق ہے وہ اٹوٹ ہے۔اب اگر لندن میں سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے‘ پارک میں خزاں کے موسم میں گرتے ہوئے پتوں کے نیچے رکھے بنچ پر بیٹھے اور ہیمر سمتھ برج سے دریائے تھیمز (گورے اسے تھیمز کہتے ہیں جبکہ ہم ساری عمر اسے ٹیمز پڑھتے رہے) کو پار کر کے اس کے کنارے درختوں بھرے راستے پر دور تک پیدل چلتے ہوئے بھی دل ملتان کی یاد میں اٹکا رہے تو پھر بندہ کیا کرے؟ گھٹنوں میں درد اور سوجن کے باوجود بلامبالغہ کئی کلو میٹر پیدل چلنے کے بعد جب تھک کر چور ہو گیا تو ایک بنچ پر بیٹھ کر ملتان دوستوں کو فون کرنے شروع کر دیے۔
ایک زمانہ تھا جب ملتان فون کرنے کیلئے ٹیلی فون بوتھ تلاش کیا جاتا تھا اور اس میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سکے پر سکے ڈالے جاتے تھے اور بات ممکنہ حد تک جلد ختم کر کے دل کو تسلی دیتے تھے۔ ہولنگ ورتھ میں ہمارے فلیٹ کے بالکل سامنے سڑک کے پار ایک بوتھ ہوتا تھا اور میں رات تین بجے اس بوتھ سے ملتان فون کیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں رائج ”ڈے لائٹ سیونگ‘‘ کے چکر میں ایک گھنٹہ وقت آگے پیچھے کرنے کے چکر میں کبھی ملتان میں صبح کے سات بجے ہوتے تھے تو کبھی صبح کے آٹھ بجے ہوتے تھے۔ ہم ایسے نقال اور احمق ہیں کہ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ شاید یورپ وغیرہ کی ترقی میں سال میں ایک بار گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے اور پھر چند ماہ بعد ایک گھنٹہ پیچھے کرنے کا بہت عمل دخل ہے‘ ہم نے بھی اس کی نقالی کی مگر دو سال کی خجالت کے بعد پرانی ڈگر پر آ گئے۔ ملکی ترقی محنت‘ تعلیم اور تحقیق کے میدان میں عملی طور پر کچھ کرنے سے جڑی ہوئی ہے نہ کہ گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے سے۔
ادھر لندن میں یہ عالم ہے کہ ہر دوست‘ ہر ملنے والا اور 16 اکتوبر کو پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والا اس عاجز سے پاکستان بھر میں ہونے والے ان انتخابات کے بارے میں عمومی طور پر اور ملتان کے حلقہ این اے 157 کے بارے میں خصوصی طور پر جب یہ کہہ کر پوچھتا ہے کہ ”آپ کو تو پتا ہی ہوگا‘‘ تو اس عاجز کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ پہلے تو عرض کرتا ہوں کہ میں گزشتہ بیس بائیس دن سے ملتان بلکہ پاکستان سے باہر ہوں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی ”فرسٹ ہینڈ انفارمیشن‘‘ فراہم کرنے سے معذور ہوں لیکن سوال کرنے والوں کی اکثریت میری مجبوری‘ معذوری اور نالائقی کو کسرِ نفسی سمجھتے ہوئے میری بات پر اعتبار کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے اور یہی سوال کسی دوسرے طریقے سے کر دیتی ہے۔ یہ افراد خاص طور پر ملتان کے حلقہ این اے 157کے بارے میں میری طرف سے تازہ ترین معلومات سے لاعلمی والی بات کو بالکل درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔
کچھ دوست ایسے ہیں کہ ان کو بتائے بغیر جائے امان نہیں مل سکتی تھی ان کی خاطر ملتان کے کچھ ایسے دوستوں سے رابطہ کرنا پڑا جو نہ صرف یہ کہ اس حلقے کی سیاسی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ ان کا تجزیہ آج کل کے عمومی صحافتی طرزِ عمل سے ہٹ کر خاصا غیرجانبدارانہ ہوتا ہے۔ وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ تقریباً ہر بندہ تجزیہ کرتے ہوئے معاملے کو اپنی مرضی اور منشا کی عینک لگا کر دیکھتا ہے اور اسے بھی وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے اور وہ اپنے اس یک رخے تجزیے کو مزید پراثر بنانے کیلئے اپنی خواہشات کا تڑکا لگاتا ہے اور عوام الناس کے سامنے اپنا ”غیرجانبدارانہ‘‘ تجزیہ پیش کر دیتا ہے۔میں اس سلسلے میں کچھ لکھنے سے قبل یہ واضح کر دوں کہ مجھے اس بات کا دعویٰ نہیں کہ میرا تجزیہ درست ثابت ہوگا‘ تاہم یہ بات میں ایمان کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ مجھے جو سمجھ آتا اور جس پر میرا دل و دماغ صاد کرتا ہے وہی لکھ دیتا ہوں۔ میں غلط تو ہو سکتا ہوں مگر الحمد للہ بے ایمان ہرگز نہیں ہوں۔ اپنے تمام تر باوثوق اور اعتباری ذرائع استعمال کرنے کے بعد میں اب بھی اپنے پرانے تجزیے پر قائم ہوں کہ حلقہ این اے 157میں پی ٹی آئی کی امیدوار مہر بانو قریشی جو شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہیں کی پوزیشن اپنے مدمقابل امیدوار سید علی موسیٰ گیلانی (جو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا فرزند ہے) سے نسبتاً بہتر ہے اور محتاط اندازے کے مطابق صورتحال 52 اور 48 کی ہے۔ یعنی مہر بانو 52 اور علی موسیٰ گیلانی 48 ہے۔
گو کہ پہلے یہ پوزیشن شاید زیادہ غیر متوازن تھی اور مہر بانو کو علی موسیٰ پر زیادہ برتری حاصل تھی لیکن الیکشن کے التوا کے دوران علی موسیٰ اور اس سے بڑھ کر خود یوسف رضا گیلانی نے اس الیکشن میں بہت محنت کی ہے اور صورتحال کو نسبتاً بہتر کیا ہے لیکن علی موسیٰ کو تیر کے انتخابی نشان کا جتنا ”ڈس ایڈوانٹیج‘‘ ہے مہر بانو کو بلے کے انتخابی نشان کا اس سے بڑھ کر ایڈوانٹیج ہے۔ کم از کم ملتان کی حد تک تو تیر کا انتخابی نشان پٹ چکا ہے جبکہ بلے کے انتخابی نشان کی آجکل جے جے ہے۔ اس حلقے کی شہری یونین کونسلوں میں بلے کو واضح برتری ہے اور علی موسیٰ گیلانی اس حلقے کی دیہاتی یونین کونسلوں کے ذریعے اس برتری کو ختم کرنے میں مصروف ہے‘ مگر فی الحال بلے کا پلڑا بھاری ہے تاہم بقول شاہ جی ‘اگر علی موسیٰ گیلانی الیکشن والے دن اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشنز تک لانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ بازی پلٹ بھی سکتا ہے‘ لیکن اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے؟ اس کالم کے چھپنے کے بارہ پندرہ گھنٹے بعد صورتحال سامنے آ جائے گی۔ گمان ہے کہ اگر مہر بانو اس الیکشن میں کامیاب ہو گئی تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ شاہ محمود کے فرزند زین قریشی کو ہو گا کیونکہ خاندانی سیاسی وراثت کو ہمیشہ زیادہ اہل وارث ہتھیا لیتا ہے۔