معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں؟
گزشتہ روز ایک عزیز میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ ایک اخبار کیلئے ’’طالب علم امتحانوں میں فیل کیوں ہوتے ہیں‘‘ کے موضوع پر سروے کر رہے ہیں، لہٰذا آپ بھی اس سلسلہ میں اپنی ماہرانہ رائے سے آگاہ کریں۔ میں نے سوچا کہ اگر رائے دینی ہی ہے تو کیوں نہ اپنے کالم میں اس کا اظہار کریں سو میرے نزدیک امتحانوں میں طلبہ کے فیل ہونے کی بنیادی وجہ خود امتحان ہے یعنی اگر عزیز طلبا کا امتحان نہ لیا جائے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے ایک طالب علم بھی فیل نہ ہو۔ دراصل طلبہ کا امتحان لینا طلبا کی صلاحیتوں اور ان کی تعلیمی استعداد پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے مترادف ہے۔ طلبہ کے امتحانوں میں فیل ہونے کی دوسری وجہ ممتحن حضرات ہیں اگر میرے ماہرین تعلیم عزیز طلبا پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے پر تل ہی گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ؎
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!
تو پھر ممتحن حضرات ایسے ہونے چاہئیں جن کے دل شفقت پدری سے معمور ہوں اور جو دوسروں اور اپنے بچوں کا بھلا چاہتے ہوں، مہنگائی کے اس دور میں ایسے شفیق حضرات کی کوئی کمی نہیں چنانچہ اگر انہیں امتحانوں میں خدمت کا موقع دیا جائے اور چھاپہ مار ٹیم اور ان کے درمیان ایک مناسب فاصلہ رکھا جائے تو آپ یقین مانیں طلبا امتحانات میں کبھی فیل نہ ہوں۔ طلبا کے امتحانات میں فیل ہونے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے چنانچہ ذہنی دبائو کی وجہ سے وہ فیل ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر انہیں سمجھا دیا جائے کہ بیٹے پاس ہونا یا نہ ہونا تو قسمت کا کھیل ہے تم اپنے کھیل کود میں لگے رہو، اللہ مالک ہے، تو مجھے یقین ہے کہ اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوں بلکہ طلبا اور معاشرے کے درمیان خیر سگالی کی فضا پیدا کرنے کی خاطر اگر ملازمتوں کے لئے امتحانوں میں فیل پاس ہونے کی شرط ہی اڑا دی جائے تو اس سے مزید اعتماد کی فضا پیدا ہو سکتی ہے مگر کوئی ان پر اعتماد تو کرکے دیکھے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ امتحانوں کے مرحلے سے صرف ہمارے طلبا ہی کو نہیں گزرنا پڑتا بلکہ میرے معاشرے کے مختلف طبقوں کو قدم قدم پر کسی نہ کسی سوال سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور یوں متذکرہ عزیز نے مجھ سے جو سوال کیا تھاوہ تو خاصا ادھورا ہے مثلاً ایک طبقہ جس کے لئے روز اول سے لے کر روز آخر تک امتحان ہی امتحان ہیں وہ عشاق کا ہے اور ان کے اس دکھ کو محسوس کرکے ہی اقبال نے کہا تھا ؎
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں
ممکن ہے یہ دونوں مصرعے الگ الگ ہوں، مگر میرے نزدیک اصل شعر بہرحال اسی طرح ہونا چاہیے تھا کیونکہ عشق میں جتنے امتحان درپیش آتے ہیں وہ ان رازدانوں ہی کی وجہ سے آتے ہیں۔ میرے ہاں ایک طبقہ سیاست دانوں کا بھی ہے جسے زندگی میں بہت سے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے مثلاً انہیں زبردست تحریک چلا کر مارشل لا لگوانا پڑتا ہے اور پھر ایک دوسری تحریک کے ذریعے مارشل لا اتروانا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں میرے سیاستدانوں کی ایک تعداد ماشا اللہ اہل ثروت طبقے سے تعلق رکھتی ہے مگر رسم دنیا نبھانے کے لئے کبھی کبھار انہیں جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ تحریک کے دنوں میں جلسے جلوس ہوں تو میلے کچیلے اور بدبو دار لوگوں کے درمیان کچھ وقت بھی گزارنا پڑتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا بھی کھانا پڑتا ہے یعنی زہر مار کرنا پڑتا ہے بسا اوقات وسیع تر قومی مفاد کے لئے اپوزیشن سے نکل کر اچانک وزیر بننا پڑتا ہے ، وزارت ہاتھ سے جاتی دیکھ کر اپوزیشن میں بھی آنا پڑتا ہے، غرضیکہ ان بے چاروں کی زندگی میں امتحان ہی امتحان ہیں۔ عزیز طالب علم انہیں قریب سے دیکھیں تو اپنے امتحان بھول جائیں۔
تاہم میرے ہاں سب سے زیادہ امتحانوں سے اگر کسی طبقے کو گزرنا پڑتا ہے تو وہ صاحبان اقتدار کا طبقہ ہے ۔ اقتدار کا حصول بجائے خود ایک امتحان ہے چنانچہ کئی امیدوارتو کمرہ امتحان میں پستول لے کر جاتے ہیں۔ حصول اقتدار کے بعد استحکام اقتدار اور زیادہ مشکل امتحان ہے کیونکہ اس کیلئے تھوڑے عرصے کے بعد قمیض کی آستین میں سے کبوتربھی نکالنے پڑتے ہیں، رسی پر سائیکل چلانی پڑتی ہے حتیٰ کہ کئی دفعہ مسخروں والی ٹوپی پہن کر رنگ میں اچھل کود بھی کرنا پڑتی ہے۔ حصول اقتدار اور استحکام اقتدار کے بعد سب سے مشکل امتحان وہ ہوتا ہے جب اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے، بھریا میلہ چھوڑنا سب سے مشکل کام ہے اور اس امتحان میں آج تک کوئی پاسنگ نمبر لے کر بھی پاس نہیں ہوا، چنانچہ سب کو فیل ہی کرنا پڑتا ہے اور فیل ہونے کے بعدہی اس امتحان سے انہیں نجات ملتی ہے، سو میں تو پوری دیانتدار سے محسوس کرتا ہوں کہ امتحانات وغیرہ کا سسٹم یکسر ختم کردینا چاہیے کیونکہ اس سے طلبا، عشاق، سیاست دانوں اورصاحبان اقتدار کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ یوں بھی ہم مشرقی لوگوں کی ایک روایت یہ ہے کہ کسی کو امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ چنانچہ یہ روایت مجھے یہاں بھی نبھانی چاہیے اور حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ طلبہ، عشاق، سیاستدانوں اور صاحبان اقتدار میں سے کسی کو بھی امتحان میں نہ ڈالا جائے تاہم اگر یہ امتحان ضروری ہیں تو پھر جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ممتحن بہت شفیق قسم کے لوگ ہونے چاہئیں تاکہ ہر ایک کو سند مل سکے اور بوقت ضرورت کام بھی آسکے۔