سیاست کرنے کیلئے بہت وقت پڑا ہے

آدھے سے زیادہ ملک کے اس وقت تاریخ کے بدترین سیلابی ریلوں کے باعث تباہی سے دوچار ہیں۔ اس وقت سندھ‘ بلوچستان‘ پنجاب کا جنوبی حصہ اور شمالی علاقہ جات ایک ایسے انسانی المیے سے گزر رہا ہیں کہ اس نے 2010ء کے سیلاب سے بھی بڑھ کر تباہی کی ہے لیکن اس افسوسناک صورتحال میں زیادہ افسوس اور ملال کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس تباہی پر آج سے دو چار دن پہلے تک وہ رد عمل اور کاوشیں دکھائی نہیں دیں جن کی فی الوقت ضرورت تھی اور یہی حال اپوزیشن یعنی عمران خان کا ہے۔
آسمان سے برسنے والا پانی کوہ سلیمان اور دامان کے پہاڑوں سے جس تیزی اور شدت سے نیچے آ کر آبادیوں کو تہس نہس کر رہا ہے اس کا اندازہ اسلام آباد اور لاہور کی رود کوہیوں سے محفوظ ایلیٹ کلاس بھلا کیسے لگا سکتی ہے؟ راجن پور‘ جام پور‘ فاضل پور اور داجل سمیت اس بیلٹ کی ساری آبادیاں ایسی تباہی سے دوچار ہیں کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ راجن پور میں سیلابی ریلے سے بہہ جانے والے گھر کے مکین‘ تین بچوں سمیت پانچ افراد کا خاندان ایک چارپائی پر شدید بارش میں اپنے اوپر پولی تھین کی چھوٹی سی شیٹ ڈالے اس تگ و دو میں مصروف ہے کہ طوفانی ہوا ان کا یہ آخری شیلٹر بھی نہ لے اڑے۔ گھر تباہ ہو چکے ہیں‘ ساری فصلیں برباد ہو گئی ہیں اور مال مویشی پانی بہا کر لے گیا ہے۔ سر پر کھلا آسمان ہے جس سے روزانہ چھاجوں پانی برس رہا ہے اور نیچے بھی پانی ہے۔ فاضل پور شہر میں سے چار سے چھ فٹ پانی گزر چکا ہے۔ پہاڑوں سے آنے والی رود کوہیوں نے سارے پل‘ ساری سڑکیں اور تمام راستے اس طرح تباہ کر کے رکھ دیے ہیں کہ آمد و رفت کا اب کوئی ذریعہ سوائے کشتیوں کے باقی نہیں بچا۔ امدادی کاموں میں سرکار سے بڑھ کر وہ رضا کار تگ و دو میں مصروف ہیں جن پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ وہ کسی نام و نمود اور دنیاوی صلے سے بے پرواہ رضائے الٰہی کی خاطر اپنی تنظیم کے نام کے بغیر خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ جنوبی پنجاب کے انتہائی جنوبی ڈویڑن ڈیرہ غازیخان کے تین اضلاع تو تباہی کی ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں گویا اس جگہ پر سیلاب‘ بارش اور زلزلے کے بعد کسی نے تباہ کن بمباری کی ہے لیکن شاباش ہے پنجاب حکومت پر کہ لاہور میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو پچیس مئی والے دن پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر قائم ہونے والے مقدموں کے اخراج اور تب کے حکمران یعنی مسلم لیگ( ن )کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائیوں پر مشوروں اور ان کو رگڑا لگانے کی کوششوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔

ادھر اسلام آباد میں چالیس کلو میٹر پر قائم اپنی حکومت کو دوام دینے کی تگ و دو میں مصروف حکمرانوں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ انہیں کل تک توشہ خانے اور فارن فنڈنگ پر عمران خان کو نااہل قرار دلوا کر انہیں سیاست سے آؤٹ کرنے کی پڑی ہوئی تھی تاہم اب پانی بالکل ہی سر سے گزر گیا ہے تو انہیں ہوش آئی ہے۔ ساری حکومت کو شہباز گل کے ریمانڈ میں توسیع سے بڑھ کر کسی چیز سے دلچسپی نہیں اور ان کے سارے ”منہ زور‘‘ لیڈر اپنی زبان کی توپوں کا رخ صرف عمران خان کی طرف کئے ہوئے ہیں اور کسی عوامی نمائندے کو عوام کی فکر نہیں ہے۔ ایک ایسی اجتماعی بے حسی اور بے رحمی کا سماں ہے کہ بندہ پریشان ہے کہ اس ملک کے حکمران اور حکمرانی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ساری سیاسی قیادت کیا کر رہی ہے؟ عوام کی خدمت کے دعویدار سیاسی لیڈر کہاں ہیں؟ عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والے عوام کی اس حالت میں کدھر ہیں؟ لے دے کر ایک سراج الحق ہیں اور جماعت اسلامی کی الخدمت ہے جو سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد فرض کفایہ کو ادا کر رہی ہے لیکن یہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں محض ایک ایک رکن رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ جماعتیں کہاں ہیں جو باری باری اقتدار کے مزے بھی لیتی ہیں اور اس سے جڑے ہوئے سارے فوائد سے لطف اندوز بھی ہوتی رہی ہیں؟

تونسہ میں سنگھڑ اور اور کھر بزدار کے پہاڑی پانی نے جو تباہی مچائی ہے اس کی تصویر کشی قلم سے ممکن نہیں۔ وہووا‘ مٹھوان اور کوڑا کی آبادیاں گویا صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ دریا کے کٹاؤ سے بستی جلووالی ساری کی ساری دریا برد ہو گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کا سارا رخ صرف اور صرف سندھ اور بلوچستان کی طرف ہے۔ خدانخواستہ اس سے میرا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ این ڈی ایم اے کی توجہ ادھر کیوں ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ ادھر جو تباہی ہو رہی ہے اس کے پیش نظر ادھر بھی توجہ دی جائے۔ ان علاقوں میں صرف غیر سیاسی رضاکار حتی المقدور بحالی کے کام میں مصروف ہیں مگر وسائل کی کمی کے پیش نظر ان کا بلند و بالا جذبہ بھی وہ کچھ نہیں کر پا رہا جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہاں امدادی کاموں میں ہمارے ایمرسن کالج کے پرنسپل مختار علی خان مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر عثمان علی خان گزشتہ کئی روز سے تونسہ میں مصروف عمل ہیں اورکشتیوں کی عدم دستیابی‘ خوراک اور ضروریات زندگی کی فراہمی میں تعطل اور مسلسل بارشوں سے ذرائع آمد و رفت میں رکاوٹوں کے باوجود اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللہ انہیں اور ان جیسے دیگر مخلص اور درد دل رکھے والوں کی دستگیری فرمائے۔

لوگوں کی ساری فصلیں اس طرح تباہ ہوئی ہیں کہ ان کی پوری فصل سے ایک پودا بھی سلامت نہیں رہا۔ راجن پور کے نواح میں امان اللہ خان کی بیس مربع زمین پر کاشت شدہ رہوڈزگراس کی فصل سیلابی ریلوں سے آنے والی مٹی تلے دب گئی ہے۔ بقول امان اللہ خان کے اس نے اپنی اسی سالہ زندگی میں ایسی بارشیں‘ اتنا پانی‘ اس طرح کی پہاڑی نالوں کی طغیانی اور اس کے نتیجے میں اس قسم کی تباہی کبھی نہیں دیکھی۔ لوگوں کے مویشی تیز رفتار رود کوہیوں میں بہہ گئے ہیں۔ مکان زمین بوس اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ایسی تباہی ہوئی ہے کہ اب اس علاقے کے غریب لوگوں کے پاس دوبارہ گھر تعمیر کرنے کیلئے پھوٹی کوڑی نہیں۔ بربادی کا یہ عالم ہے کہ اس ساری صورتحال سے نپٹنے کیلئے برسوں درکار ہیں۔ یہ صرف جنوبی پنجاب کے بارشوں سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال تھی۔ سندھ اور بلوچستان میں اس سے بھی برا حال ہے۔

اوباڑو سے لے کر بدین تک کچھ باقی نہیں بچا۔ کپاس اور مرچوں کی فصل کا تو مکمل صفایا ہو گیا ہے۔ ٹماٹر کی پنیری برباد ہو گئی ہے‘ چاول کی فصل کو بیس سے پچیس فیصد نقصان ہوا ہے۔ صرف گنا ہے جو اس صورتحال میں کسی حد تک سلامت ہے۔ لیکن پانی نہ اترا تو یہ بھی برباد ہو جائے گا۔ ساری کی ساری سبزیوں کی فصل پر پانی پھر گیا ہے۔ تباہی اتنی شدید ہے کہ اس کے متاثرین اگلے کئی سال تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ آدھے سے زیادہ ملک پانی میں ڈوبے ہوا ہے اور اس حالت میں عمران خان فرماتے ہیں کہ ”آخری کال پر عوام کا سمندر چاروں طرف سے اسلام آباد آئے گا‘‘۔ کروڑوں لوگ اس تباہی سے دوچار ہیں اور خان صاحب کو جلد از جلد الیکشن کی پڑی ہوئی ہے اور شہباز گل سے تفتیش میں پوچھے گئے سوالات کی پریشانی لاحق ہے دوسری طرف حکمرانوں پر عمران خان کو کسی نہ کسی طرح نااہل قرار دلوانے کا خبط سوار ہے۔ کیا حکمران اور عمران خان صرف ایک مہینے کیلئے جلسے‘ جلوس‘ تقریریں‘ مقدمے‘ پرچے‘ ریمانڈ اور الیکشن کے چکروں سے نکل کر سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی کیلئے وقت نہیں نکال سکتے؟ رفاہی کاموں کے لیے پیسے مانگنے میں ید طولیٰ رکھنے والے عمران خان اس تباہی سے دوچار لوگوں کیلئے ریلیف فنڈ قائم کر کے جائز اور قانونی ”فارن فنڈنگ‘‘ نہیں کروا سکتے؟ سیاست کیلئے بڑا وقت پڑا ہے۔ اس مشکل میں اگر سیاست کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔