اب وہ ڈاکو نہیں رہے

جو کام ستر برسوں میں چوہدری ظہور الٰہی خاندان میں کبھی نہ ہوا تھا وہ آخر اب ہو گیا ۔ سننے میں آیا کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی خاندان میں رنجش پیدا ہو گئی ہے (اگرچہ چوہدری خاندان تردید کر رہا ہے)۔ کسی نے درست کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پرویز الٰہی کتنا عرصہ وزیر اعلیٰ رہیں گے؟ ہو سکتا ہے چھ ماہ یا ایک سال یا پھر ڈیڑھ سال؟ لیکن جو دراڑ دونوں رہنمائوں کے بچوں میں پڑ گئی ہے وہ شاید اب دور رس ہو۔ لگتا یہی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کے بچوں کے پاس ایک ہی آپشن ہو گا کہ وہ کسی طرح نواز لیگ کو جوائن کریں‘ جو اُن کے والد کا بڑا پرانا خواب رہا ہے‘ لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے اب تحریک انصاف کی وزیر اعلیٰ بنانے کی پیش کش قبول کر کے شاید وقتی طور پر راستہ روک دیا ہے۔
بہت سے لوگوں کیلئے عمران خان کا چوہدری پرویز الٰہی کو بنی گالہ بلا کر انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ ابھی کل پرسوں تو عمران خان نے اخلاقیات پر جلسہ عام میں ایک طویل لیکچر دیا اور سب کو بتایا تھا کہ وہ کیسے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر کھڑے ہیں‘ پوری دنیا اس لیے ان کی دشمن بن گئی کہ وہ کسی بات پر کمپرومائز نہیں کرتے‘ وہ جھکتے نہیں نہ ہی انہیں جھکایا جا سکتا ہے‘ وہ برائی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اگلی صبح ہی وہ سب اصولوں کو ڈسٹ بن میں پھینک کر حالات کے دبائو میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا رہے تھے‘ وہی جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے۔ قدرت بھی انسان کو اس زندگی میں کیا کیا کچھ دکھاتی ہے کہ جس بندے کو ساری عمر ڈاکو کہا اسے خود اپنے گھر بلا کر پنجاب کی پگ اس کے سر پر رکھ دی تاکہ اپنا اقتدار بچ سکے۔ کیا کوئی اقتدار کیلئے اتنا کمپرومائز بھی کرسکتا ہے؟ انسان کیسے ایک دن پہلے اتنے دعوے کرکے دوسرے ہی دن ان سے مکر سکتا ہے۔ برائی کے خلاف نعرہ ایک دن بھی نہ چل سکا۔ حیران ہوں ہم اس زبان سے ان پاک ہستیوں کا نام کیسے لیتے ہیں جنہوں نے مشکلات دیکھیں‘ ہجرت کی‘ دکھ اٹھائے لیکن اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔ہمارے خان صاحب کی امر بالمعروف کی باتیں ایک دن سے زیادہ نہ چل سکیں۔
تکلیف ہوتی ہے کہ واقعی یہ خطہ بانجھ ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا بندہ نہیں جو کسی کردار کا مظاہرہ کرے‘ جسے دیکھ کر ہم اش اش کر اٹھیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی! ایک بازار لگا ہوا ہے جس میں کوئی باضمیر انسان نہیں مل پاتا۔ سب کہتے ہیں کہ سیاست میں یہ سب چلتا ہے۔ قرآن پاک کا بار بار حوالہ دینے والے عمران خان بھول جاتے ہیں کہ قرآن میں ہی لکھا ہے کہ عہد کو پورا کرو۔ ہمارے ہاں روز ایک وعدہ کیا جاتا ہے قوم سے اور اگلے دن مکر کر دانت نکال دیتے ہیں اور قوم بھی ہنسنے لگ جاتی ہے۔ جس لیڈر نے اس قوم کا اخلاق ٹھیک کرنا تھا‘ جب موقع آیا تو اسے اپنے اقتدار کی فکر پڑ گئی۔ اخلاقیات اور اعلیٰ کردار کے سب لیکچر ایک لمحے میں ہوا ہو گئے۔ چاہئے تو یہ تھاکہ لات مارتے ان ڈرٹی کمپرومائزز کو کہ بہت ہو گیا‘ روح تک آلودہ ہو گئی‘ شخصیت مسخ ہوکر رہ گئی۔ انسانی روح کی پاکیزگی سے بڑا سکون اور کیا ہو سکتا ہے؟ ایک خواہش انسان کو کہاں تک لے جاتی ہے۔ مجھے تو واقعی خود سے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ انسان جسے اپنے نفس یا خواہشات پر کنٹرول نہ ہو‘ کس طرح ہر قسم کی حدیں عبور کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
عمران خان کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ ان ساڑھے تین برس کی تمام تر وعدہ خلافیوں کے باوجود اس موقع پر کھڑے ہو جاتے کہ کافی ہو گیا ۔ ٹھیک ہے وہ مجبور تھے‘ پرویز الٰہی کو سپیکر بنا دیا تھا لیکن اب وہ اس بندے کو پورا صوبہ نہیں دیں گے جسے وہ بیس برس سے ناپسند کرتے آئے ہیں۔ کسی نے درست کہا تھا کہ سیاست نام ہی strange bedfellows کا ہے۔ چلو ایک رات‘ دو راتیں‘ چلیں ایک ہفتہ لیکن کتنا عرصہ بندہ ایک ہی بندے کے ساتھ ایک ہی کمرے میں تمام تر ناپسندیدگی کے باوجود برسوں گزار سکتا ہے؟ دکھ اس بات کا ہے کہ عمران خان نے پہلے اس قوم کو اخلاقی بنیادوں پر کھڑا کیا‘ گھر گھر میں اخلاقیات کی اہمیت پر برسوں لیکچر دیئے۔ اب جب موقع آیا کہ وہ قوم کیلئے ایک رول ماڈل بنتے لیکن وہ اسی وقت حقیقت پسند بن گئے کہ کیا کریں سیاست میں غیراخلاقی حرکتوں کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اب پوری قوم جو عمران خان کے اعلیٰ اخلاقیات کے نعروں کے بعد ان کے پیچھے لگ گئی تھی‘ وہ خان صاحب کا احتساب کرنے کے بجائے الٹا ان کی سیاست کی قائل ہوگئی ہے۔
عمران خان کا بڑا کریڈٹ کہیں یا اس قوم کے ساتھ بد ترین زیادتی کہ انہوں نے ایک پڑھی لکھی کلاس کو نتائج سے بے پروا ہو کر برائی کے خلاف کھڑا ہونا سکھانے کے بجائے اسے کمپرومائز کرنے کا سبق دیا ہے۔ وہی پڑھی لکھی کلاس جو خواب دیکھ کر سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوئی تھی‘ وہ الٹا اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی سیاست کا جواز پیش کرتی ہے۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ آپ زرداری اور شریفوں کی اخلاقیات پر نہیں لکھتے جو دھڑا دھڑ ایم این ایز کے ضمیر خرید رہے ہیں۔ وہ ہر ایک کی بولی لگا رہے ہیں۔ زرداری اور شریف برادرز کی برائی کا دکھ اس لیے کم ہے کہ انہوں نے کبھی ریاست مدینہ بنانے پر تین برس لیکچر نہیں دیے نہ ہی امربالمعروف کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے قوم کو سیدھا سیدھا کہا کہ ہم کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔ ان سے تو امید ہی نہ تھی۔ افسوس اس کا ہے جس نے کہا کہ نہ میں زرداری ہوں نہ شریف۔ خود کو دنیا کا نیک ترین بندہ بنا کر پیش کیا‘ اس نے بھی اگر وہی کرنا ہے تو پھر عمران‘ زرداری یا شریف برادرز میں کیا فرق رہ گیا؟ جو کام زرداری اور شریف کھلم کھلا کرتے ہیں وہی خان صاحب اخلاقیات کے لیکچر دے کر کرتے ہیں۔
کبھی سوچتا ہوں‘ اس قوم کو ایسے لیڈر درست سمجھتے ہیں جو اس کی کمزوریوں سے کھیل کر اس کی محنت کی کمائی پر عیاشی کرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے مریم نواز یا حمزہ شہباز پنجاب کے لوگوں کی محبت میں مرے جا رہے ہیں اور وہ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں؟ ان دونوں کو لگتا ہے کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ ساڑھے تین سال سے اپنی جیب سے خرچے چلا رہے ہیں۔ وہ گاڑیاں‘ پروٹوکول اور ہٹو بچو کی آوازیں… یہ ایک ایسا نشہ ہے جو انسان کو جیل یا پھانسی کے پھندے تک لے جا سکتا ہے‘ لیکن انسان پھر بھی باز نہیں آتا۔ آج اگر شریف خاندان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہے تو اس میں خان صاحب کا اپنا بڑا ہاتھ ہے۔ انہیں لالچ‘ خوف اورعدم تحفظ لے بیٹھا۔ انہوں نے پنجاب میں ایک ڈمی تلاش کی اور اسے ایسا بڑا لیڈر بنا کر پیش کیا کہ خود بزدار تک وہ خوبیاں عمران خان کے منہ سے سن کر حیران رہ گئے۔ مجھے دکھ ہے کہ وسیم اکرم جیسے ایک بڑے باؤلر کے ساتھ اس کا موازنہ کر کے عمران خان نے وسیم اکرم سے کوئی پرانے بدلے چکا دیے۔ جس طرح عمران خان کی اس خود غرضانہ سوچ نے پنجاب کو نقصان پہنچایا وہ اپنی جگہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ازالہ نہیں ہو پائے گا۔
ہمارے نوجوان بھی مروجہ سیاست کے رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ وہ دن جو اُن کے خواب دیکھنے کے تھے‘ پہاڑوں کو بھی اپنی طاقت سے ہلا دینے کے تھے‘ وہ جو نیا پاکستان بنانے نکلے تھے وہ آج کل پرانے پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کی خوبیاں گنوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جنہیں وہ کل پنجاب کا ڈاکو کہتے تھے آج انہیں فرشتہ ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ وہ اب ڈاکو نہیں رہے۔