تیس سال بعد

ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد صاحب کا فون تھا کہ اسلام آباد میں ہوں‘ دل چاہ رہا ہے آج ہم چند ملتانی کہیں اکٹھے ہوں اور چائے پی کر ملتانی ”بٹ کڑاک‘‘کریں۔ مظہر عارف صاحب کا بھی پیغام ملا: ڈاکٹر انوار احمد شہر میں ہیں‘ کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے انفارمیشن منسٹری کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے افسر دوست طاہر خوشنود نے بھی جوائن کر لیا جنہوں نے ملتان یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا تھا۔ میری اور طاہر خوشنود کے تعلق کی بڑی وجہ ملتان یونیورسٹی اور انگریزی ڈیپارٹمنٹ تھا۔ اس کے علاوہ میڈیم مبینہ طلعت یا پھر شیری زبیر صاحبہ۔ طاہر خوشنود جس دن موڈ میں ہو بڑی اعلیٰ گفتگو کرتا ہے۔ اگر ڈس موڈ ہو تو ہم دوستوں کی ٹکا کر بے عزتی کرتا ہے۔ ہم دوستوں نے اسے Loose canon کا خطاب دے رکھا ہے۔ ہمارے انفارمیشن منسٹر کے دوست غلام حیدر صاحب بھی کہتے ہیں کہ طاہر کو سات خون معاف ہیں۔ کبھی دور تھا کہ انفارمیشن منسٹری میں بہت سارے اچھے افسران سے دوستی تھی جن میں غلام حیدر، طاہر خوشنود کے علاوہ ملک جاوید سرفراز، ناصر جمال بھی شامل تھے۔ ہر ہفتے ہم لوگ اسلام آباد کلب کھانے پر ملتے اور دیگر دوستوں کے ساتھ لمبی نشستیں ہوتیں۔ ان سب دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد کی سیاست اور صحافت سمجھے کا موقع ملا۔ ان دوستوں کے کمروں میں ہی بیٹھ کر کبھی کبھار کوئی بڑی خبر ہاتھ لگ جاتی۔ کبھی کبھار یہی دوست ہماری فائل کی گئی خبروں یا سکینڈلز پر سخت پریس ریلیز ہمارے خلاف جاری کرتے‘ لیکن اس سب کے باوجود ذاتی تعلقات خراب نہ ہوئے۔ سب کو پتہ تھا Nothing personal, its business وہ اپنی نوکری کررہے تھے تو میں اپنی کررہا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا کہ جب ہفتے بعد کلب ملتے تو بڑی دیر تک بحث ضرور ہوجاتی کہ ان کا خیال تھا‘ فلاں خبر میں جان نہیں تھی اور میں کہتا: آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس میں آپ کے صاحب پھنس رہے ہیں۔ ایک دفعہ طاہر خوشنود نے فون کیا کہ یار تم نے کیا تماشہ بنایا ہوا ہے کہ میرے ایک جونیئر انفارمیشن افسر کو تمہاری خبر کی وجہ سے مشکل پیش آرہی ہے۔ اس سے مل لو اور اس کا کام کردو۔ میں نے کہا: سر بھیج دیں۔ وہ نوجوان آیا اور بتانے لگاکہ میری خبر کی وجہ سے اسے وزیر صاحب کی باتیں سننا پڑگئی تھیں۔ بولا: یہ پریس ریلیز ہے‘ لگوا دیں۔ میں نے کہا: لگ جائے گی۔ اسے عزت سے بٹھایا اور چائے پلائی۔ اس کا موڈ اب بھی خراب تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور کہا: آپ کتنے عرصے سے اس وزارت میں کام کررہے ہیں؟ وہ بولا دو سال ہوگئے ہیں۔ میں نے پوچھا: آپ کو وزیر یا سیکرٹری نے اس سے پہلے کبھی بلایا جب تک یہ سکینڈل نہیں چھپا تھا؟ بولا: کبھی نہیں‘ آپ کی خبر کے بعد آج ملا اور کافی عزت دی اور اس خبر کو ڈسکس کیا۔ میں نے ہنس کر کہا: اگر میں یہ خبر فائل نہ کرتا تو انہوں نے اگلے تین سال بھی تمہیں نہیں بلانا تھا۔ ہو سکتا ہے کسی دن یہ انفارمیشن کی سیٹ بھی ختم کرا دیتاکہ ہم تو بڑے نیک اور پرہیزگار ہیں‘ آپ کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے ہنس کر مزید کہا: سمجھدار انفارمیشن افسران اپنی اپنی وزارتوں کی خبریں مہینے میں ایک آدھ دن خود میڈیا میں لگواتے ہیں تاکہ وزارت کو احساس رہے کہ ابھی ان کی ضرورت باقی ہے۔ آپ لوگ الٹا خبریں رکوانے آ جاتے ہو۔ ہماری لگائی خبروں کی وجہ سے تو آپ لوگوں کی سرکاری نوکری چل رہی ہے۔ اگر ان وزارتوں پر ہم سکینڈل اور خبریں فائل ہی نہ کریں تو وزارتیں اور وزیر تم لوگوں کی سیٹیں ہی ختم کر دیں۔ میں نے بات جاری رکھی: برخوردار اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ آپ لوگ خبریں نہ رکوایا کریں بلکہ الٹا ہمیں خبریں دیا کریں تاکہ وزارتیں اور وزیر ٹھیک رہیں اور آپ لوگوں کی اہمیت برقرار رہے۔ اس نوجوان انفارمیشن افسر کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا اور بولا: سمجھ گیا سر۔ اس کے بعد اس نے مجھے کئی سکینڈلز اور خبریں دیں۔ برسوں بعد طاہر خوشنود نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ میں نے نوجوان افسر بھیجا تھا کہ اس کی وزارت پر خبروں پر ہاتھ ہولا رکھا کرو‘ تم نے الٹا اس کو ہی خبروں کا سورس بنا لیا۔ میں نے کہا: کیا اس نے شکایت کی؟ بولے: شکایت تو نہیں کی لیکن تمہاری ”کمینگی‘‘ کا جواب نہیں۔
مظہر عارف صاحب سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہورہی تھی۔ میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے بعد ان کے پاس 1993 میں فرنٹیئر پوسٹ ملتان بیوروآفس میں انٹرنشپ کرنے گیا تھا۔ ڈاکٹر انوار احمد نے انہیں فون کیا تھا کہ رئوف کو انٹرن شپ پر رکھ لیں۔ میں ان سے ملتان خان پلازہ واقع دفتر گیا تو ٹائپ رائٹر پر بیٹھے خبریں ٹائپ کر رہے تھے۔ پوچھا: صحافی کیوں بننا چاہتے ہو۔ میں نے بے پروائی سے کہا: میں تو نہیں بننا چاہتا۔ کچھ حیران ہوئے۔ ان کی انگلیاں ٹائپ رائٹر پر رک سی گئیں اور پوچھا: پھر یہاں اخبار کے دفتر کیا کرنے آئے ہو؟ میں نے کہا: نعیم بھائی آپ کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے میں کچھ دن آپ کے صحبت میں گزاروں تو میری ذہنی قابلیت بہتر ہو سکتی ہے۔ وہ کچھ سوچ کر مسکرائے اور دور پڑی کرسی میز کی طرف اشارہ کیا اور بولے: چلو ٹھیک ہے وہاں بیٹھ جائو۔
ایک دن بڑا کمال ہوا۔ اس دن دفتر کا ہیلپر چھٹی پر تھا۔ مظہر عارف صاحب سے ملنے چند اہم سیاسی لوگ آئے۔ مظہر صاحب نے مجھے کہا: یار نیچے ڈھابے پر جا کر کچھ چائے اور بسکٹس کا کہہ کر آجائو۔ ان کا لڑکا دے جائے گا۔ اتفاقاً اسی دن میری یونیورسٹی کی کلاس فیلو لڑکیوں کا موڈ بنا کہ سنا ہے رئوف کو یونیورسٹی سے امتحان دینے کے فوراً بعد کسی انگریزی اخبار میں بڑی زبردست نوکری مل گئی ہے۔ حالانکہ یہ انٹرنشپ تھی نوکری نہیں۔ اس وقت انٹرن شپ اور نوکری میں زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وہ تین چار دوست لڑکیاں مجھے ملنے چل پڑیں۔ اس دوران جب میں خان پلازے میں دور ایک کونے میں واقع ڈھابے پر پہنچا اور اسے چائے اور بسکٹس کا کہا تو وہ بولا: کچھ دیر لگ جائے گی کیونکہ وہ ویٹر لڑکا کہیں اور چائے دینے گیا ہوا ہے۔ میں نے ایک لمحے سوچا اور کہا: آپ چائے بنا کر ٹرے میں رکھ دیں‘ میں خود لے جائوں گا‘ مہمان کب تک انتظار کریں گے۔ اس نے چائے بنا کر چینک میں ڈال دی‘ ساتھ تین چار پیالیاں اور بسٹکس کے پیکٹس۔ میں نے ٹرے پکڑی اور اپنے دفتر کی طرف چل پڑا۔
دفتر کی سیڑھیاں چڑھ کر میں نے ٹرے نیچے رکھی۔ دفتر کا دروازہ کھولا اور چائے والی ٹرے اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑے میں اندر داخل ہوا تو میری نظر اچانک سامنے بیٹھی اپنی یونیورسٹی کلاس فیلو لڑکیوں پر پڑی جو مجھے حیرانی سے دیکھ کر ہنس رہی تھیں کہ اچھا تو یہ ہے وہ انگریزی اخبار کی نوکری۔
اس وقت بھی مظہر عارف نے مجھے ڈانٹا تھا کہ تمہیں کس نے کہا تھا‘ خود چائے لائو۔ آج تیس برس بعد ایک کیفے میں یہ واقعہ یاد کیا تو پھر ہنستے ہوئے انہوں نے مجھے ڈانٹا۔ میں نے کہا: سر مجھے اس وقت بھی فخر تھاکہ خود آپ اور آپ کے مہمانوں کیلئے چائے لایا تھا اور آج بھی ہے۔ استادوں کیلئے چائے لانا تو عام سی بات ہے، جوتے سیدھے کرنے پڑیں تو میں کروں گا۔ اگر میں آپ سے نہ ملتا، ڈاکٹر انوار احمد آپ کو فون نہ کرتے، آپ مجھے انٹرنشپ نہ دیتے تو میں آج صحافی نہ ہوتا۔ میں آپ سے متاثر ہو کر صحافی بنا تھا۔ جرنلزم میں میرے پہلے استاد اور پہلے ہیرو آپ تھے۔
اسلام آباد کے سرد موسم میں کیفے کے اندر کافی کی چار سو پھیلی خوشبو کے درمیان مجھے لگا‘ وقت پھر پیچھے چلا گیا تھا۔ آج تیس سال بعد ملتان کے ہم تین کردار ڈاکٹر انوار احمد، مظہر عارف اور میں ان کا شاگرد اکٹھے تھے۔ میں چپ چاپ بیٹھا اپنے استادوں کو دیکھ رہا تھا کہ ان تیس برسوں میں وہ کتنے بدل گئے تھے، خود میں کتنا بدل گیا تھا۔