جنہیں نیچر سے دلچسپی ہے …(2)

مرشدی مشتاق احمد یوسفی کے قول سے ہماری حلال جانوروں اور پرندوں سے رغبت کی تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ حرام پرندوں کو کیا ہوا؟ اُلو‘ شکرا‘ عقاب‘ پہاڑی کوا‘ ہد ہد‘ نیل کنٹھ‘ شارک‘ طوطا‘ کال‘ بیا‘ کلیچی‘ بلبل اور مینا کہاں چلی گئیں؟باقی تو چھوڑیں ہمارے ہاں تو مردار خور گدھ بھی تقریباً ختم ہو گئے۔ گدھوں کی کہانی دو چار دن بعد سہی تاہم یوسفی صاحب کا قول تو سو فیصد درست دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کیونکہ کفار کا ملک ہے اس لیے حلال جانور بھلے طبعی موت مریں یا نہ مریں مگر حادثاتی موت ضرور مرتے ہیں۔ ریاست پنسلوینیا اور جارجیا میں سڑک پر سفر کے دوران بلامبالغہ ہر روزایک دو سفید دم والے ہرن مرے پڑے دیکھتا رہا ہوں۔ یہی حال حرام جانوروں کا ہے‘ یعنی حلال اور حرام دونوں قسم کے جانوروں کو عمومی طور پر تحفظ حاصل ہے اور مخصوص مہینوں میں شکار کے لائسنس کے علاوہ کسی جانور کے شکار کا تصور ہی نہیں ہے۔ ہر بندے کے پاس بندوق‘ رائفل یا تیر کمان ہے۔ جی ہاں ! تیر کمان سے شکار کرنا بھی امریکہ میں بہت مقبول ہے اور ایسی ایسی سائنٹیفک انداز کی کمانیں ملتی ہیں کہ بندہ حیران و پریشان ہو جائے۔ گزشتہ بار امریکہ گیا تو Bear کمپنی کی کمان (Bow) خریدی۔ باس پرو شاپ جاکر اس کو اپنے بازو کے سائز کے مطابق کروایا۔ اس لمبائی کو Draw Lengthکہتے ہیں۔ ابھی کسی سے اس کی شاگردی اور چلانے کا فن سیکھنا تھا کہ واپسی ہوگئی۔ آتے ہوئے یہ کمان اور دو درجن تیر بیٹی کے گھر چھوڑ آیا اور عہد کو تاکید کی کہ وہ قریبی Bow and Arrowکلب میں اس کی تربیت لے اور بعد میں میں مجھے سکھائے۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ مطلب یہ کہ امریکہ میں شکار کا ماحول‘ درکار اسلحہ اور بذاتِ خود شکار اتنی کثرت سے ہے کہ ہمارے ہاں اس کا تصور ہی محال ہے ‘مگر اس کے باوجود ہر چیز میں توازن ہے۔ شکاری قانون اور ضابطے کے پابند ہیں۔ جتنے دنوں کا یا تعداد کا ہے اس سے اوپر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں شکار پر پابندی ہے وہاں بھلے سے جانور اور پرندے آپ کے صحن میں گھومیں یا لان میں پھریں آپ صرف انہیں دیکھ سکتے ہیں اور بس۔ پرندے ایسی آزادی سے پھرتے ہیں کہ گویا پالتو ہوں۔ اب ایسے پرندوں کو تو جنگلی بھی نہیں کہا جا سکتا مگرشہروں کے قرب و جوار میں آزادی سے پھرتے ہیں۔ کسی کے پالتو نہیں ہیں مگر انسان سے ڈر خوف گویا رخصت ہی ہو چکا ہے۔یہ جانور اور پرندے ایک خاص فاصلے تک انسانوں کے درمیان بھی بڑی سہولت سے پھررہے ہوتے ہیں۔ بالٹی مور کے قریب عرفان یعقوب کے گھررات گئے پہنچے تو اس کے گیراج کے ساتھ لان میں آٹھ دس سفید دم والے ہرن مٹر گشت کر رہے تھے۔ شکاگو کے نواحی شہر شامبرگ میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے مرغابیاں گھاس میں سے کچھ چن چن کر کھا رہی تھیں۔ ایک بچہ کھیلتا ہوا جب ان کے اتنا قریب نہیں چلا گیا کہ انہیں ہاتھ سے پکڑ لے وہ مزے سے خشکی پر ہی گھومتی رہیں اور پھر حفظ ماتقدم کے طور پر پانی میں کود گئیں۔ پرسوں صبح گھر سے باہر نکلا تو ایک موٹا تازہ ہرن ساتھ والے گھر کے لان میں درخت کے ساتھ جسم کو رگڑ رہا تھا۔ ریٹائرڈ شکاری کی طرح ہاتھ میں کھجلی بھی ہوئی مگر پھر خیال آیا کہ دل کو جلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سڑکوں پرایسے ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والی ایک خاصی مصروف سڑک کے عین درمیان میں ایک خاصا صحت مند اور موٹا تازہ بیور (Beaver) بیٹھا ہوا تھا۔ اود بلاو ٔ کی نسل کا یہ جانور پانی کے قریب رہتا ہے اور سڑک کے متوازی بہنے والی ندی سے نکل کر آیا تھا۔ ٹریفک گزر رہی تھی اور وہ مزے سے منتظر تھا کہ اسے موقع ملے اور وہ سڑک پار کر لے۔ دوسری طرف سے آنے والی ایک گاڑی اس کے ”احترام‘‘میں رک گئی تو اس نے مزے سے سڑک پار کی اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ برسوں پہلے کنساس میں کیوٹی (کتے اور بھیڑیے کے درمیانی نسل) کو تین چار بار سڑک پار کرتے دیکھا۔کس کس دن کا قصہ بیان کروں؟ دس بارہ روز پہلے کھانا کھانے کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں گئے تو اس کی پارکنگ کے عین ساتھ والے گھاس کے تختے پر لمبی سیاہ و سفید گردن اور نسواری پروں والے پندرہ بیس کینیڈین ہنس (Goose) چہلیں کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں کا کوئی شکاری انہیں انسانوں اور موٹر کاروں کے اتنا قریب بے خوف پھرتا ہوا دیکھ لے تو حیرانی سے فوت نہ بھی ہو تو بیہوش ضرور ہو جائے۔
برسوں گزرے جب ہم دوست سردیوں میں دریائے سندھ کے بیٹ میں کئی کئی دن کیلئے ڈیرے لگاتے تھے۔ شدید سردی میں دریا کے عین درمیان میں کسی ٹاپو پر کیمپ لگاتے۔ عموماً یہ کیمپ کوٹ ادو سے آگے دائرہ دین پناہ کے ساتھ احسان پور سے اندر دریائے سندھ کی طرف کیا جاتا تھا ۔ہم دریا کے کنارے تک گاڑیوں میں جاتے اور پھر کشتیوں کے ذریعے دریا کے بیچوں بیچ جا کر ڈیرہ لگا لیتے۔ اس ٹاپو پر جہاں کہیں سبزہ اگا ہوتا اس کے قریب ریت میں کھڈا مار کر اس پر ”لئی‘‘کی جھاڑیوں سے اوٹ بناتے۔ اسے مقامی زبان میں ”لْکی‘‘ کہتے تھے۔ اگلے روز سورج نکلنے سے بھی بہت پہلے کیمپ سے چلتے اور ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور بنے ہوئے اس پوشیدہ گڑھے میں اتر کر بیٹھ جاتے۔ اس شدید سردی میں بیٹھے بیٹھے جسم اکڑ جاتا اور پاو ٔں سن ہو جاتے۔ تب ہلکے سے دھندلکے میں دور سے کہیں ہنسوں کی ”اینک اینک‘‘ کی آواز آتی۔ ہماری ساری کوفت اور سردی کا احساس کہیں اڑن چھو ہو جاتا۔ ابھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ ہنسوں کی آواز تو سنائی دیتی تھی مگر وہ خود نظر نہیں آتے تھے۔ پھر اچانک پھڑ پھڑانے کی آوازیں آتیں۔ یہ بار ہیڈ ڈگوز (Bar-headed goose) ہوتے تھے جنہیں ہم دیسی زبان میں ”مگھ‘‘ کہتے تھے۔ میں اور اطہر خاکوانی ایک ”لْکی‘‘ میں ہوتے تھے اور اویس خاکوانی کسی اور دوست کے ساتھ آدھ کلو میٹر دور دوسری لْکی میں ہوتا تھا۔ پہلے پہل انس خاکوانی بھی بندوقچیوں میں شمار ہوتا تھا مگر پھر اس نے صرف کیمپ کا انتظام اپنے ذمے لے لیا اور شکار سے ریٹائر ہوگیا۔
سائبیریا سے آنے والا یہ پرندہ ہزاروں میل کے اس سفر میں سارا راستہ بندوقوں کے ”ٹھاکے‘‘سن کر اتنا ڈرا اور سہما ہوا ہوتا تھا کہ پتا بھی ہلے تو اڑ جاتا تھا۔ ہم اپنی شکار کیلئے بنائی گئی پناہ گاہ کیمپ سے ڈیڑھ دو میل دور اس لیے بناتے تھے کہ یہ پرندہ انسانی نقل و حرکت سے اتنا محتاط تھا کہ جہاں اسے انسانی موجودگی کی بھنک بھی پڑ جاتی تو وہ ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔ اس ڈرے سہمے‘ محتاط‘ چوکنے اور مردم گزیدہ پرندے کو دھوکہ دینے کیلئے ہم دریا کے درمیان اگے ہوئے سبزے کے بیچوں بیچ اسی کی شکل کے ربڑ سے بنے ہوئے نقلی پرندے (Decoys) رکھ کر انہیں اُدھر آنے کیلئے متوجہ کرتے تھے۔ ہم شکار بطورشوق کرتے تھے نہ کہ گوشت اکٹھا کرنے کیلئے۔ چار پانچ مگھ شکار کر لیتے تو واپس کیمپ چلے جاتے جہاں سارا دن گپیں مارتے‘ کشتی پر کسی کو بھیج کر قریبی دیہات سے دیسی مرغی منگواتے اور مرحوم غلام محمد عرف چاچا غلامے سے پکواتے۔ کبھی کسی مچھیرے سے تازہ شکار کی ہوئی مچھلی خرید لیتے اور اس سے پیٹ بھر لیتے۔ پھر یوں ہوا اوروں کو اس جگہ کی مخبری ہو گئی۔ ایک دو سال میں وہاں اتنا بے تحاشا شکار ہوا کہ پرندے اس طرف کا رخ کرنا چھوڑ گئے۔ اس کے بعد ہم نے ایک دو سال ایسے گزارے کہ مگھ کی شکل بھی دکھائی نہ دی۔ ایک عشرے سے زیادہ ہو گیا ہے اب ادھر کا رخ بھی نہیں کیا۔ اناڑی شکاریوں نے اس طرح بے دردی سے اندھا دھند شکار کیا کہ ہجرت کرنے والے پرندے بھی ادھر کا رخ کرنا چھوڑ گئے۔ (جاری)