خیال خام ہی سہی، مگر ہے تو سہی

میرے چند مستقل پڑھنے والے میرے امریکہ میں بیٹھ کر کالم لکھتے ہوئے مختلف معاملات پر پاکستان اور امریکہ میں تقابل کرنے پر مجھے اس حرکت سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ان کی محبت ہے کہ وہ مجھے اس کارِ لاحاصل سے اس لیے روکتے ہیں کہ بقول ان کے یہ تقابلی موازنہ کوئی عملی تبدیلی تو لا نہیں سکتا، ہاں! یہ صرف اور صرف فرسٹریشن پیدا کرتا ہے‘ لہٰذا وہ مجھے اس خواہ مخواہ کی پریشانی سے بچانے کے لیے اس تقابل سے روکتے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کم از کم ہمیں یہ احساس تو بہرحال زندہ رکھنا چاہئے کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں اور ابھی ہمیں اس کا احساس بھی نہیں کہ ہم لمحہ بہ لمحہ کس طرح مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ دنیا جس رفتار سے آگے جا رہی ہے ہم اس درمیانی فرق کو کم کرنا تو رہا ایک طرف اس فرق کو برقرار بھی نہیں رکھ پا رہے۔ درمیانی فرق کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم اس رفتار سے ترقی کرنا لازم ہے جس رفتار سے ترقی یافتہ ممالک مزید آگے جا رہے ہیں۔ مثلاً اگر ایک گاڑی ہم سے دو سو میٹر آگے جا رہی ہے اور اس کی رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے تو یہ درمیانی دو سو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنے کیلئے لازم ہے کہ ہماری رفتار بھی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہو۔ اگر ہماری رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہو گئی تو درمیانی فاصلہ کم ہونے یا برقرار رہنے کے بجائے بڑھتا جائے گا۔
امریکہ میں مقیم ایک قاری نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ ہمیں امریکہ کی موجودہ صورتحال تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگے گا؟ اسی قاری نے اپنی میل میں اپنے ایک بزرگ کو بتایا کہ پاکستان اس وقت امریکہ سے سو سال پیچھے ہے۔ میرا اس حوالے سے ذاتی خیال یہ ہے کہ جس رفتار سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ آگے جا رہے ہیں اگر ہمارے اور ان کے درمیان علم، تحقیق اور ترقی کا فرق پورا کرنے کے لیے آج سو سال کا عرصہ درکار ہے اور آنے والے دنوں میں اگر ہمارا عملی رویہ یہی رہا تو یہ فرق کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔ میں اپنے کالموں میں یہ تقابل اس امید پر کرتا ہوں کہ شاید ہمیں اپنے نقصان کا احساس ہو جائے۔ شاید ہمارے اندر یہ احساس جاگ اٹھے کہ ہم کس طرح ذلت و رسوائی کے گڑھے کی عمیق گہرائیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ امریکہ، یورپ حتیٰ کہ چین وغیرہ کو ایک طرف رکھیں۔ تین چار عشرے قبل جب متحدہ عرب امارات جاتے تھے تو وہاں کے صورتحال کافی ابتر اور ناگفتہ بہ تھی اور پھر وہ ہماری آنکھوں کے سامنے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
دبئی میں پاکستانی کرنسی چلتی تھی۔ ہوٹلوں کے کمروں میں ہدایات عربی، اردو اور انگریزی زبان میں لکھی ہوتی تھیں۔ چالیس سال پرانی بات تو چھوڑیں صرف پانچ سال پہلے یعنی 2017ء میں اماراتی درہم اٹھائیس پاکستانی روپوں کے برابر تھا اور آج 2022ء میں اماراتی درہم اڑتالیس روپے کا ہو چکا ہے۔ اسی کی دھائی تک دبئی کی یہ صورتحال تھی کہ دور دور تک ریت اڑتی تھی۔ وہاں کے اداروں کو چلانے کے لیے پاکستان سے افرادی قوت جاتی تھی۔ امارات ایئرلائن چلانے کے لیے پائلٹ، تکنیکی عملہ اور دیگر ماہرین پی آئی اے سے ادھار پر منگوائے جاتے تھے‘ اتصالات کو چلانے کیلئے انجینئرز ہمارے ہاں سے جاتے تھے۔ تب ادھر سے انجینئرز اس رفتار سے عرب ممالک جا رہے تھے کہ پاکستان میں سرکاری نوکریوں کے لیے انجینئرز دستیاب نہیں ہو رہے تھے۔ تب واپڈا وغیرہ نے انجینئرز کو سترہ گریڈ کی سرکاری نوکری کے لیے ترغیب دینے کی غرض سے سترہ گریڈ کی تنخواہ اور دیگر مراعات کے علاوہ دس ہزار روپے اضافی الائونس دینے کی پالیسی بنائی تاکہ اپنی ضرورت کے مطابق نئے انجینئرز بھرتی کیے جا سکیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ملک میں بے روزگار انجینئرز کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں مگر یہ تعداد ہزاروں سے بھی آگے جا چکی ہے اور حالات روز بروز مزید دگرگوں ہو رہے ہیں۔ آج ہمارے انہی انجینئروں، بینکاروں، ماہرین تعمیرات، جہازرانی، صنعت و حرفت اور مالیاتی اداروں کے ماہرین کی محنت کے طفیل خلیجی ممالک کہاں پہنچ گئے ہیں اور اسی قابلیت کے حامل درج بالا شعبوں سے تعلق رکھنے والے وہ ماہرین‘ جو پاکستان میں تھے‘ کی زیر نگرانی اداروں کا کیا حال ہو گیا ہے۔ فرق صرف طرز حکمرانی اور حکمرانوں کی ترجیحات اور خلوص نیت کا تھا۔
امریکہ میں ہمارے پاکستانی ہر شعبہ ہائے زندگی میں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کے برابر ہی نہیں بلکہ ان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ طب، انجینئرنگ، آئی ٹی، زراعت، مالیاتی اداروں اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں ہمارے پاکستانی تارکین وطن اپنی مہارت کے طفیل نام اور مقام پیدا کر سکتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں یہ کچھ نہیں کر رہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی سڑے بُسے نظام کو چھیڑے بغیر صرف چہرے تبدیل کرکے درست کرنا چاہتے ہیں۔ ہر آنے والے کے مفادات اس بدبودار نظام سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا وہ اس سارے سسٹم کو تبدیل کرنے کے بجائے اسے اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر درد دل رکھنے والے کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ کیا اب اس پر کڑھنا، لکھنا اور درستی کی خواہش کرنا بند کر دیں؟ ایک بار پھر وہی اعجاز کنور راجا کی غزل:
اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
دھوپ آنکھوں میں چبھنے لگی ہے تو کیا ہم سفر چھوڑ دیں
دست بردار ہو جائیں فریاد سے اور بغاوت کریں
کیا سوالی تیرے قصر انصاف، زنجیرِ در چھوڑ دیں
جب لعاب دہن اپنا تریاق ہے دست و بازو بھی ہیں
سانپ گلیوں میں لہرا رہے ہیں تو کیا ہم نگر چھوڑ دیں
شہریاروں سے ڈر جائیں ہم، حق پرستی سے توبہ کریں
اپنے اندر بھی اک آدمی ہے اسے ہم کدھر چھوڑ دیں
ہم نے دیکھا ہے دریائوں کا رخ کنور شہر کی سمت ہے
شہر والے اگر بے خبر ہیں تو کیا بے خبر چھوڑ دیں
میں گزشتہ چالیس سالوں سے خلیجی ممالک میں اور پچیس سال سے یورپ وغیرہ جا رہا ہوں۔ وہاں ہربار جانے کے بعد احساس ہوا کہ دنیا ترقی کررہی ہے اور واپسی پر پاکستان آ کر پتا چلاکہ ہم بھی ترقی کررہے ہیں مگر یہ ترقیٔ معکوس ہے۔ میں ادھر پیریزبرگ میں اپنے سات سالہ اور پانچ سالہ نواسے کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتا ہوں تو وہ یوٹیوب پر مارک روبر کی ویڈیوز لگا کر لطف لیتے ہیں۔ ناسا کا سابقہ انجینئر ہزاروں ڈالر لگا کر مختلف سائنسی تجربات پر مبنی ویڈیوز بناتا ہے اس کے چینل کو سبسکرائب کرنے والوں کی تعداد اکیس ملین سے زیادہ ہے جبکہ اس کی ویڈیوز کو اب تک اڑھائی ارب سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔ بچے ان ویڈیوز کو اتنے شوق اور انہماک کے ساتھ دیکھتے تھے کہ انہیں آواز دیں تو ان کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ساری قوم کو فضول، اخلاق باختہ، رشتوں کے تقدس سے عاری اور تہذیب سے گرے ہوئے ٹک ٹاک کلپس دیکھنے سے فرصت نہیں، یہاں کسی نے مارک روبر کا نام بھی نہیں سنا اور ایسی ایسی ٹک ٹاکرز کے فالوور کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کے بارے میں معمولی سی تحقیق کریں تو سوائے تعفن کے اور کچھ نہیں ملتا۔ ایسے میں بہتری کی امید کرنا گو کہ خام خیالی ہی لگتی ہے مگر کیا اب اس خیال سے بھی دستبردار ہو جائیں؟