توشہ خانہ کیس،چیئرمین پی ٹی آئی کا 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ

توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین نے 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کرا دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی۔

عدالت نے 35 سوالات کے جوابات کو دہرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کمرۂ عدالت میں اپنے وکلاء کے ساتھ بیٹھ گئے جبکہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور اپنے چیمبر میں چلے گئے۔

بلاؤ یار جج صاحب کو، چیئرمین پی ٹی کا اپنے وکلاء سے مکالمہ

چیئرمین پی ٹی نے اپنے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بلاؤ یار جج صاحب کو۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی قانونی ٹیم نے 342 کے دیے گئے بیان پر نظرثانی کر لی۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت
توشہ خانہ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جج ہمایوں دلاور نے سوال کیا کہ کیا آپ نے جو جوابات دیے اس سے مطمئن ہیں؟

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جی میں سوالات کے دیے گئے اپنے جوابات سے مطمئن ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ رات گئے تک جاگتے رہے ہیں؟

تیری زلف کہہ رہی ہے تیری رات کا یہ حال ہے، جج ہمایوں دلاور کے شعر پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کا ہی آج کل یہ حال ہے سر۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا پہلے حلف پر بیان سے انکار پھر دستخط
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ریکارڈ کرائے گئے 342 کے بیان پر دستخط کر دیے اور اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ کمرۂ عدالت سے روانہ ہو گئے۔

اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت کے سامنے حلف پر بیان دینے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی طرف سے شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔

عدالت سے غیرمتعلقہ افراد کو نکال دیا گیا
جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے غیرمتعلقہ افراد کو نکال دیا گیا جبکہ مخصوص صحافیوں اور وکلاء کو کمرۂ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء خواجہ حارث، گوہر علی خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے۔

میں سوالات سنا رہا ہوں، جوابات دینا چاہیں تو دیں، جج
جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ میں سوالات سنا رہا ہوں، جوابات دینا چاہیں تو دیں۔

جج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر پیش کریں، عدالت سوالات آپ کو پڑھ کر سنائے گی، باقی آپ کی مرضی۔

جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ کیا آپ نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے؟

چیئرمین پی ٹی آئی کا بیان
چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے، یہ میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے، میری موجودگی میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی، مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کیس میں کسی کو نمائندہ مقرر کیا ہی نہیں، سیشن عدالت نے خود ہی میرا نمائندہ مقرر کر دیا، سیشن عدالت نے میرا نمائندہ مقرر کر کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرائے، میں نے نمائندہ مقرر کرنے کی کوئی درخواست جمع نہیں کرائی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد نجی بینک کا ریکارڈ طلب کیا، مجھ سے الیکشن کمیشن نے کبھی نجی بینک سے متعلق تفصیلات پوچھی ہی نہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ نجی بینک سے متعلق ریکارڈ بنانے والا فرد بطور گواہ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، گواہ نے کہا کہ نجی بینک کا ریکارڈ کمپیوٹر سے نکالا گیا، بعد میں گواہ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ دائر جواب میں نہیں کہا 58 ملین روپے نجی بینک میں جمع کرائے، قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کرائے جائیں، الیکشن کمیشن کے فارم بی میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود ہی نہیں، لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ لسٹ بناتے وقت کسی نے تحائف کی مالیت کی تفصیلات بھی نہیں بنائیں، گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کرایا، تحائف سے متعلق دستاویزات بناتے وقت مجھ سے رابطہ نہیں کیا گیا، اتنا کہوں گا تحائف سے متعلق دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جا سکتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ گواہ مصدق انور کا عہدہ بھی نہیں لکھا گیا، گواہان کو آخری لمحے پر میرے خلاف بطور گواہ سامنے لایا گیا، گواہان کو میرے خلاف جھوٹا بیان دینے کے لیے لایا گیا، اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ گواہان میرے خلاف جھوٹا بیان دیں، 14 ماہ سے پی ڈی ایم مجھے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے، توشہ خانہ بشمول 180 دیگر کیسز اور 2 قاتلانہ حملے مجھ پر کروائے گئے۔