دومزاح پارے!

“بتاؤ، میرا نام کیا ہے”؟

فروری 67میں محمد علی اور ارنی ٹیرل کے درمیان ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن کے ٹائٹل کیلئے فائٹ رکھی گئی لیکن فائٹ سے پہلے ہی تنازعہ کھڑا ہوگیا ،ہوا یوں کہ میڈیا ٹاک کے دوران ارنی ٹیرل نے محمد علی کو اسکے پرانے نام کیشس کلے سے مخاطب کیا۔ محمد علی جو اپنی مسلم شناخت کے حوالے سے بہت حسّاس تھے آگ بگولا ہوگئے انہوں نے ٹیرل کو سختی سے منع کیا مگر وہ مسلسل انہیں ان کے پرانے نام سے مخاطب کر کے چڑاتا رہا محمد علی نے سخت طیش کے عالم میں ٹیرل سے کہا کہ وہ معافی مانگے اور انہیں محمد علی کہہ کر پکارے، انہوں نے دھمکی دی کہ باکسنگ رِنگ میں ٹیرل انہیں بہر صورت محمد علی کے نام سے مخاطب کرنے پر مجبور ہو جائیگا لیکن ٹیرل نہ مانا اور میڈیا ٹاک بد مزگی پر ختم ہو گئی۔6 فروری کو ہیوسٹن میں میچ کے دوسرے ہی راونڈ میں ٹیرل کی آنکھ مکا لگنے سے سوج گئی اور خون بہنا شروع ہو گیا، ٹیرل نے باقی میچ نیم بینائی کی حالت میں کھیلا، محمد علی بار بار ٹیرل سے پوچھتے ‘’بتاؤ میرا نام کیا ہے؟‘ اور پھر ٹیرل پر مکوں کی برسات کر دیتے۔آٹھویں راونڈ میں ٹیرل بری طرح لڑکھڑاگیا اور میچ کے آخرتک اس کی حالت دگرگوں رہی اور محمد علی وہ میچ جیت گئے۔ میچ کے بعد محمد علی پر تنقید کی گئی کہ وہ ٹیرل کو ناک آؤٹ کر سکتا تھا مگر اُس نے ٹیرل کی پٹائی اور توہین کی غرض سے فائٹ کو 15ویں راؤنڈ تک کھینچا اور مار مار کر ٹیرل کا بھرکس نکال دیا ۔ بعد میں ٹیرل نے اعتراف کیا کہ محمد علی کو غلط نام سے پکار کر طیش دلانا اسکے باکسنگ کیرئیر کی ایک فاش غلطی تھی جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا ۔ ذرا سوچیں ارنی ٹیرل نے خواہ مخواہ محمد علی کا نام بگاڑ کر اسے طیش دلایا ۔اگر کھیل کھیل ہی رہتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔بالکل ایسی ہی غلطی عمران خان سے ہوئی انہوں نے سوبر انداز میں سیاست کرنے کے بجائے بلاوجہ اس میں غصہ اور نفرت شامل کر دیئے ۔اپنے مخالفین کی توہین کی، انکے نام بگاڑے، انہیں طیش دلایا۔ اوئے نواز شریف ، ڈیزل، ڈاکو،مریم نانی ،ڈاکو رانی، پنجاب کا ڈاکو ۔ غرض خان نے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے اور ان کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کا ہر مخالف رِنگ میں محمد علی کی طرح انہیں ایک چپت رسید کرتا ہے اور ساتھ ہی پوچھتا ہے’بتاؤ میرا نام کیا ہے؟‘ یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ‘’جھاکا ‘ کھلنے کے بعد ان کی گستاخ اکھیاں اس ‘’خاکی‘ سرکار سے جا لڑیں جو اپنی فطرت میں ’’ناری‘‘ہے۔ خان صاحب نے فوج کے سربراہ کیلئے کبھی ’جانور‘ کبھی ’میر جعفر‘ کبھی ’غدار‘، کبھی ’’ملک دشمن‘‘، کبھی ’’ہینڈلر‘‘، کبھی’’منافق‘‘، کبھی، ’’ڈرٹی ہیری‘‘جیسے القاب بلا تکلف استعمال کئے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ نفرت کا کھیل ایک بار شروع ہو جائے تو اس کا اگلا راؤنڈ مزید نفرت سے عبارت ہوا کرتا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیائی ٹائیگرز نے پوری کردی۔اب منظر کچھ یوں ہے کہ خان کا سیاسی چہرہ ٹیرل کی طرح لہو لہان ہے، وہ لڑکھڑا رہا ہے، اُس پر مُکّوں کی برسات ہو رہی ہے اور ان کا ہر مخالف باری باری ان کے سر پر ایک چپت لگاتا ہےاور سوال پوچھتا ہے …..’’بتاؤ، میرا نام کیا ہے”؟ (منقول)

’’ایک دن بیگم کے ساتھ‘‘

ایک دن بیگم بڑے موڈ میں تھی، کہنے لگی ’’کیا آپ کی کوئی گرل فرینڈ ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ کہنے لگی ’’کسی کو آفس میں پسند کرتےہیں‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ پھر پوچھا ’’شادی سے پہلے کوئی افیئر؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ کہنے لگی، ’’اتنا اچھا لکھتے بولتے ہیں، دِکھنے میں بھی ٹھیک ٹھاک ہیں…. یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نےکہا کہ لڑکیاں پیسہ چاہتی ہیں اور وہ میں کسی غیر پہ خرچنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے کسی سے دوستی نہیں کی۔ پھر پوچھا ’’کوئی تو کبھی جوانی میں پسند آئی ہو گی؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ منہ بنا کر بولی، ’’اس کا مطلب کہ میں ہی پہلی ہوں جو آپ جیسے کو پسند کرتی ہوں‘‘ کوئی فلمی ایکٹر تو پسند ہو گی‘‘ میں نے کہا ’’نہیں، ہاں البتہ بچپن میں ڈنٹونک کی مشہوری میں ایک لڑکی آتی تھی، وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔ میں اس وقت 7-6 سال کا تھا۔ لیکن پھر وہ کبھی ٹی وی پہ نظر نہیں آئی‘‘ اس کے بعد بیگم کا پارہ چڑھ گیا اور بولی کہ 35 سال پرانی لڑکی نہیں بھُولی، اب بھی دماغ میں ہے وہ چڑیل، تم سارے مرد ایک جیسے ہو، اس لئے اب تک بچپن کی ساری چیزیں سنبھال کر رکھی ہیں اور راشن میں بھی ہمیشہ ڈنٹونک لاتے ہو، صبح شام بچوں کو دانت صاف کرنے کا کہتے ہو، اس کلمونہی کی یاد تازہ کرتے رہتے ہو اور اکثر سوچوں میں گم رہتے ہو۔ سب سمجھتی ہوں، یقیناً نیٹ پہ بھی اسی کو سرچ کرتے ہو گے، اسی لئے 24 گھنٹے موبائل میں کھبے رہتے اور فیس بک پہ اسی کے نام کی شاعری کرتے پھرتے ہو۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ ہو نہ ہو کوئی پرانی عاشقی پال رکھی ہے، سب سمجھتی ہوں، مجھے اب آپ کے ساتھ نہیں رہنا…. اور یہ کہہ کر ڈنٹونک اٹھا کر باہر پھینک دیا….(منقول)