معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ایک گھناؤنی تصویر کے دو رخ؟
میرا آج کا کالم بہت عجیب سا ہے اس کا آغاز کچھ اور ہے اور انجام کچھ اور !اس کا آغاز یہ ہے ملک میں معاشی اور سیاسی ابتری کی جو فضا پائی جا رہی ہے اس حوالے سے عوام کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے، اشیائے ضروریہ کی مہنگائی روز افزوں ہے جس کی وجہ سے بیس پچیس ہزار ماہوار کمانے والوں کی زندگی تو اجیرن ہو ہی گئی ہے دو تین لاکھ روپے ماہوار کمانے والے بھی پریشان ہیں کہ ان کا معیارِ زندگی عوام الناس سے مختلف ہے اور یوں ان کے لئے بھی اپنے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا ہے، اوپر سے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی ناامیدی اور مایوسی پیدا کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ اور کاروبار منتقل کرنے کیلئےکوشاں ہے ۔کاروباری لوگوں کے علاوہ ہماری ایلیٹ کلاس کی ایک تعداد مغربی ممالک کی شہریت حاصل کئے ہوئے ہے تاکہ جب ضرورت پڑے یا سرکاری ملازمت سے فارغ ہوں تو پہلی فلائٹ میں ملک سے فرار ہوجائیں، ان کے علاوہ بھی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک میں آباد ہونے کیلئے کوشاں رہتی ہے ،ان میں حب الوطنی کے دعویدار بھی ہیں اور اسلام کے سرفروش مجاہد بھی، حاجی نمازی، پرہیز گار اوراپنے گھروں میں اسلامی ماحول کے خواہشمند بھی اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے والے بھی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑی موٹیویٹنگ فورس خوشحالی، امن اور سکون کی زندگی ہے ۔
اس وقت لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی مغربی ممالک کے شہری ہیں جن کی شہریت حاصل کرنے سے پہلے اپنے سابقہ ملک سے لاتعلق اور نئے ملک سے مکمل وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے کچھ ممالک میں اپنے سابقہ ملک سے مکمل لاتعلقی کا حلف تو شامل نہیں لیکن ایک دو نسلوں کے بعد اس حلف کی ضرورت بھی نہیں رہتی کہ ’’ہر کہ کان نمک رفت ، ونمک شد‘‘والا معاملہ ہو جاتا ہے، پہلی نسل اپنی روایات سے جڑے رہنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے اس کیلئے پاکستان سے علما کو اپنے ہاں بلایا جاتا ہے اور ان میں سے بھی بہت سے اس ’’بے دین ماحول ‘‘ میں اپنے بال بچوں کو لے آتے ہیں ،خیر پہلی نسل کی طرف سے مسجدیں تعمیر کی جاتی ہیں گھروں میں میلاد کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں خواتین مبلغ اپنا ایک حلقہ بناتی ہیں جس کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں ،یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور نیک نیتی سے کیا جاتا ہے مگر کب تک جو بچے اور بچیاں ان کے اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے نصاب ہمارے ہاں کے تعلیمی نصابوں جیسے نہیں ہوتے، وہاں تو کشادگی دل و نظر پیدا کی جاتی ہے سوالات جنم دیئے جاتے ہیں چنانچہ ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے یا تو گھر اور گھر سے باہر کی تربیت کے درمیان پھنس کر رہ جاتے ہیں اور یا یک سو ہو جاتے ہیں دونوں صورتوں میں گوناگوں مسائل پیدا ہوتے ہیں، تاہم اس کے بعد کی نسلیں عمومی طور پر گھر سے باہر کے ماحول ہی میں پناہ لیتی ہیں ۔میں نے امریکہ میں قیام کے دوران مشائخ کے خاندان کی ایک صاحبزادی کو ایک سوئمنگ پول پر سوئمنگ کاسٹیوم میں مردوں کے ساتھ ڈبکیاں لگاتے دیکھا تھا !
اب اگر میں یہاں یہ وعظ کرنے بیٹھ جائوں کہ ’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘تو یہ بے وقت کی راگنی ہو گی ،یہ مسئلے کا حل ہی نہیں ہے ۔مسئلے کا حل ’’فوری ‘‘ انقلاب بھی سمجھا جاتا ہے مگر یہ حل نہیں ہوتا اس سے بے شمار نئے مسائل جنم لیتے ہیں میرے نزدیک مسئلے کا حل رائج الوقت جمہوری نظام پر نظرثانی کا ہے جس کے نتیجے میں وہ قیادت سامنے آسکے جو محرومیوں کا شکار ہے ،جن کے قیام و طعام کی ذمہ داری ریاست اپنے ذمے نہیں لیتی، جن کے علاج معالجے تعلیم کی ذمہ دار بھی ریاست نہیں ہے مگر یہ لوگ قیادت کیسے سنبھال سکتے ہیں، ان کے رستے میں بے شمار رکاوٹیں ہیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے، بہت جلد نہیں مگر جب بھی یہ جدوجہد کامیاب ہو گی اور متحدہ ملکوں کے عوام اس میں کامیاب ہوئے ہیں چنانچہ اب وہاں کسی خونی انقلاب کی گنجائش نہیں ،اب ان فلاحی مملکتوں میں انصاف کی حکمرانی ہے امن وامان ہے، بچے کی پیدائش سے لیکر اس کے بڑھاپے تک ریاست ان کے حقوق کی رکھوالی ہے اگر ہم یہ کام کر سکیں اگرچہ اس میں لفظ ’’اگر‘‘ اس رستے کی مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے تاہم بیٹھے بٹھائے کچھ حاصل نہیں ہوتا کچھ حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ۔اور اس کالم کے آخر میں ،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک میں جس طرح باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک خوفناک فضا پیدا کی گئی ہے ،ہر طرف آگ اور دھواں نظر آ رہا ہے اس پس منظر میں دیکھیں تو میرے آج کے کالم کا آغاز بے وقت کی راگنی لگتا ہے مگر میں ایسی صورتحال کے جنم لینے کے حوالے سے اپنے متعدد کالموں میں اشارہ کر چکا ہوں کہ غربت، بے بسی، لاچاری ایک دن مثبت ردعمل کی بجائے وہ لوگ بھی جو نیک نیت ہیں ایسے عناصر کے ہاتھوں میں کھیل سکتے ہیں جو ملک میں انارکی چاہتے ہیں کہ انارکی بھی ان کے مقاصد کی تکمیل کر سکتی ہے چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ دو تین دنوں کے اندر اسٹاک ایکسچینج کی صورتحال کیا ہے، ڈالر کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے صرف سرکاری تنصیبات نہیں بلکہ ان قومی یادگاروں کو بھی جلا کر خاک کر دیاگیا ہے جو ہمارے فخر کی علامت تھیں اور یہ کام انہی سے لیا گیا جن کی حب الوطنی میں مجھے کوئی شک نہیں ،ان کی برین واشنگ کی گئی کہ اس حوالے سے تم جو کچھ بھی کرو گے اس میں تمہارے مسائل کا حل ہے۔ میرے آج کے کالم کا پہلا حصہ اسی صورتحال سے جڑا ہوا ہے کہ جب محروم طبقات کی شنوائی نہیں ہوتی تو خود کو آگ لگانے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں گزشتہ دو تین دنوں سے ہم اس خود سوزی کے رستوں کی جانب گامزن ہیں۔ یہ صورتحال اس پس منظر کا بھی نتیجہ ہے کہ جب پس پردہ ہاتھ حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں وہ اپنی مرضی کا حکمران لاتے ہیں اور پھر یہی حکمران بعض اوقات انہی کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں اور اپنے اقتدار کو طویل سے طویل تر کرنے کیلئے ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ان دنوں یہی کچھ ہو رہا ہے اور اس حوالے سے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی خوشی دیدنی ہے بھارت کے علاوہ سی این این اور بی بی سی کی نشریات کا لہجہ بھی ان دنوں بدلا بدلا سا ہے، ہم پاکستان کی سلامتی کی دعا خداسے مانگتے رہتے ہیں مگر اپنی سوچ اور اپنے رویے تبدیل نہیں کرتے۔ میں بھی آخر میں خدا ہی سے اپیل کروں گا کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کیلئے کچھ کرے کہ میں بھی تو اسی قوم کا فرد ہوں جو اس سلسلے میں خود کچھ نہیں کرتے بس آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں!