ہم تجربوں سے بھی نہیں سیکھتے

زیادہ دیر تک ایک جگہ پر ٹک کر بیٹھنا کتنا اذیتناک ہوتا ہے اس کا اندازہ بہت کم لوگ لگا سکتے ہیں لہٰذا ایسی صورت میں میری حالت کا اندازہ لگانا ہر کسی کا کام نہیں ہے۔ دوستوں کا تو یہ عالم ہے کہ ایک آدھ ہفتہ ملتان میں دکھائی دے جائو ں تو وہ پوچھنے لگتے ہیں کہ خیر سے آپ ٹھیک ہیں؟ کہیں طبیعت تو ناساز نہیں کہ گزشتہ آٹھ دس دن سے ملتان کو ہی شرفِ میزبانی بخشا ہوا ہے؛ تاہم اس بار جب انہوں نے یہ سنا کہ میں ناران جا رہا ہوں اور میرے ساتھ میرے بچے اور پھر ان کے بچے بھی ہمراہ ہیں جن میں ایک شیر خوار بچی بھی شامل ہے تو انہوں نے سوات اور شمالی علاقہ جات میں ہونے والی انتہائی غیر معمولی اور Unprecedented بارشوں سے ہونے والی بے پناہ تباہی سے ڈرانے کی اور سمجھانے کی کوشش کی مگر میرا اٹل ارادہ دیکھ کر شاہ جی نے زچ ہو کر کہا کہ اس کو جانے دیں۔ ہمارے پاس اس کے پائو ں کے نیچے ہونے والی کھجلی کا کوئی شافی علاج نہیں ہے۔
شمالی علاقہ جات میں جانے کا پروگرام تو جولائی میں ہی بن گیا تھا جب میں امریکہ میں تھا۔ عہد آفرین سے یہ طے پایا کہ ان کے امریکہ سے آتے ہی ادھر چل پڑیں گے۔ ان کے پاکستان آنے سے قبل ہی بارشیں اور پھر سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بیٹی نے وہاں سے سیلاب زدگان کی مدد بحالی کے لئے بنک کے ذریعے کچھ رقم ٹرانسفر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیسے الخدمت والوں کو بھجوا دیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر من و عن عمل کرتے ہوئے اس کے پیسے انہیں بھجوا دیے۔ اب اس کے بعد ہر دوسرے دن سفر کے بارے میں صلاح مشورہ ہونے لگے اور خنجراب تک طے شدہ پروگرام سکڑتے سکڑتے ناران تک آن پہنچا۔
یہ محض اتفاق ہے کہ میں گزشتہ دو سال اسی طرف آیا ہوں۔ گزشتہ سے پیوستہ سال ہنزہ جاتے ہوئے ہم نے شاہراہ قراقرم کے راستے جانے کے بجائے کاغان اور بابوسر ٹاپ کے راستے چلاس تک والا نسبتاً مختصر راستہ اختیار کیا اور پھر چلاس سے شاہراہ قراقرم پر گلگت اور پھر ہنزہ گئے۔ گزشتہ سال ایک دشوار گزار لیکن خوبصورت شاران کے جنگل کی کشش ادھر کھینچ لائی۔ کاغان سے تھوڑا پہلے پارس سے شاران چلے گئے اور واپسی پر ناران کا رخ کیا۔ دریائے کنہار ہمارے ساتھ بالا کوٹ سے چند میل پہلے ہی چلنا شروع ہو جاتا ہے؛ تاہم یہ ساتھ آنکھ مچولی والا ہوتا ہے لیکن بالا کوٹ پر دریا کا پل پار کرتے ہی دائیں طرف پہاڑ اور بائیں طرف دریا کے ساتھ چلنے والا یہ سفر بٹہ کنڈی تک چلتا ہے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ دریائے سوات کے برعکس دریائے کنہار کے ساتھ موجود ساری آبادیاں دریا کے بہائو سے خاصی بلندی پر ہیں اور بیشتر جگہوں پر سوائے ناران کے‘ ہوٹل وغیرہ عموماً دریا کے اندر نہیں بلکہ اس سے خاصی اونچائی پر ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہاں کا ہوٹل مافیا کوئی بڑا اصول پسند یا قواعد و ضوابط پر عمل کرنے والا ہے بلکہ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ناران کے علاوہ دریا قدرتی طور پر اتنا نیچے اور تنگ ہے کہ وہاں پر ہوٹلوں کی تعمیر ہی ممکن نہیں۔ ناران میں آ کر وادی کھلی ہو جاتی ہے تو وہاں یار لوگوں نے وہی حال کیا ہوا ہے‘ جو سوات میں مدین، بحرین اور خاص طور پر کالام میں ہوا ہے۔
وادی کاغان میں چونکہ دریا عمومی طور پر سڑک سے خاصا نیچے ہے اور پل وغیرہ دریا کے بہائو سے خاصی بلندی پر ہیں‘ اس لیے محفوظ رہے۔ صرف بٹل اور مہانڈری میں نیچے دریا کے ساتھ بنے ہوئے ایک آدھ چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کا نقصان ہوا۔ صرف مہانڈری میں بائیں طرف سے آنے والے نالے میں بارشوں کے پانی کے ریلے کے ساتھ آنے والے پتھروں نے نالے کا پل اڑا کر رکھ دیا جس کے باعث یہ راستہ کئی روز بند رہا۔ دریائے کنہار پر بننے والے ”سکی کناری ڈیم‘‘ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں نے رات دن کام کر کے یہ عارضی پل دوبارہ تعمیر کر دیا اور سڑک کو دوبارہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔
سکی کناری ڈیم گزشتہ چار‘ پانچ سال سے زیرِ تعمیر ہے اور اب تک اس کا نوے فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس کی تعمیر مکمل ہونے کی تاریخ 2023ء کے وسط میں طے کی گئی تھی مگر امید ہے یہ دسمبر 2022ء میں مکمل ہو جائے گا۔ 870میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے مالک اس ڈیم کی پہلی تجویز اس کی تعمیر کے شروع ہونے سے تقریباً ستاون برس قبل 1960ء میں دی گئی۔ اس سلسلے میں ایک جرمن اور ایک کینیڈین کمپنی نے اس جگہ کو چلتے دریا پر یعنی Run of the river بجلی پیدا کرنے والے ڈیم کے لیے بہت موزوں قرار دیا۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ اس دوران بجلی کی شدید قلت سے بھی دوچار رہے اور فرنس آئل وغیرہ پر لگنے والے نئے بجلی گھروں کے طفیل بجلی کی پیداواری لاگت کے آسمان تک پہنچ جانے کے باوجود اس قسم کے پروجیکٹس کے معاملے میں آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے اور ملک میں بجلی کی قیمت ناقابل برداشت حد تک زیادہ ہو گئی کہ سفید پوش طبقے کے لیے بجلی کے بل کی ادائیگی ایک ایسے عفریت کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ عوام اس کی ادائیگی سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کیے بغیر‘ چلتے دریا پر کم از کم دو درجن جگہوں پر بجلی پیدا کرنے والے ڈیم بنانے کی جگہوں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ سکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے بننے والی بجلی اس پروجیکٹ کے پچپن سال تاخیر سے بننے کے باعث‘ لاگت کے بڑھ کر دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو جانے کے باوجود‘ فی الوقت ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت کے تیس فیصد میں پڑے گی؛ تاہم فی یونٹ 8.8 سینٹ (امریکی ڈالر) میں طے ہونے والی قیمت ہائیڈل بجلی کے حوالے سے کافی زیادہ ہے اور مستقبل میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرنے کی صورت میں اگلے تیس سال تک ایک عذاب کی صورت ہم پر مسلط رہے گی کہ یہ پروجیکٹ بھی آئی پی پی یعنیIndependent Power Producer نے تیس سالہ مالکانہ حقوق کے تحت تعمیر کیا ہے اور اس پر build, own, operate and transfer کی بنیاد پر چینی بینکوں نے سرمایہ کاری کی ہے اور آپ کو علم ہونا چاہئے کہ ایسے بینک اور کمپنیاں سرمایہ کاری پر نفع کی شرح کے حوالے سے سب کو مات دیتی ہیں اور نہایت سخت قسم کے معاہدے اور سرمایہ کاری کرتی ہیں۔
گو کہ یہ چلتے دریا پر بجلی پیدا کرنے والا ہائیڈرو پروجیکٹ ہے اور اس کے ڈیزائن میں بہت بڑے آبی ذخیرہ کی ضرورت نہیں؛ تاہم ٹربائنز چلانے کے لیے درکار پانی کے مطلوبہ پریشر کے حصول کے لیے دریا کا پانی روکا جائے گا اور اس سے تین کلو میٹر سے زیادہ طویل پانی کا ذخیرہ‘ جو نوے لاکھ مکعب میٹر پانی پر مشتمل ہوگا‘ وجود میں آئے گا۔ ڈیم کی بلندی ساڑھے چون میٹر اور چوڑائی تین سو چھتیس میٹر ہو گی۔ اس ذخیرے سے کسی بڑی آبادی یا گائوں کو اپنی جگہ سے منتقل نہیں ہونا پڑے گا کہ اس ذخیرے کے لیے دریا کے پاٹ میں گنجائش موجود ہے؛ تاہم دریا کے بائیں کنارے پر موجود سڑک ڈوب جائے گی۔ اس غرض سے چار کلو میٹر لمبی ایک نئی سڑک اس ذخیرے کی سطح سے اوپر تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس غرض سے فی الحال سڑک کو عارضی طور پر دائیں سمت منتقل کر دیا گیا ہے۔
دریائے کنہار ناران کے اندر سے گزرتے ہوئے چوڑائی میں پھیل جاتا ہے اور یار لوگوں نے اس چلتے دریا کے اتھلے پانی میں چارپائیاں، کرسیاں اور میز لگا کر دریائی ہوٹل بنا لیے ہیں۔ اور بٹہ کنڈی سے پہلے بھی دریا کے ساتھ ہوٹل بن رہے ہیں اور مستقبل میں کسی اور بڑے سانحے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم تو تجربوں بھی نہیں سیکھتے۔