ہمارے ہاں سیاست کاروبار ہے!

فی الحال تو عالم یہ ہے کہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں صرف اور صرف عدم اعتماد والا معاملہ چل رہا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن ہے اور دوسری طرف حکومت۔ دونوں کے اپنے اپنے دعوے ہیں اور اپنے اپنے بیانات لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ ہر دو فریقین کی ہوا ڈھیلی ہوئی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین اپنے بلند بانگ دعووں کے بعد کسی متوقع ناکامی کی شرمندگی سے بچنے کیلئے قبل از وقت ہی نادیدہ ٹیلی فون کالز کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔ طرفین اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہیں اور اپنے حواریوں کو حوصلہ‘ لیکن تمام تر اعتماد کے باوجود اندر سے خود عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں سب کی نظریں ایم کیو ایم، چودھری پرویز الٰہی اور جہانگیر ترین پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر اپوزیشن کے نمبر پورے نہیں ہوتے اور فی الوقت اپوزیشن کو کہیں سے خیر نہیں پڑ رہی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی امیدیں اور نظریں عمران خان کی بے مروتی کے آخری شکار (فی الحال) جہانگیر ترین پر لگی ہوئی ہیں اور ترین آگے سے کسی کو پلّا پکڑانے کے بجائے غچے پر غچہ دیئے جا رہے ہیں۔ کبھی ہسپتال اور کبھی لندن کے چیک اپ کی آڑ میں وہ محتاط گیم کھیل رہے ہیں‘{ لیکن نہایت ہی کامیاب بزنس مین جہانگیر ترین شاید ابھی تک بزنس اور سیاست کو ویسے ہی بیک وقت چلانا چاہتے ہیں جیسے وہ ماضی میں چلاتے رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو کارپوریٹ سیکٹر کی طرز پر چلایا، نہایت سوچ سمجھ کر لیکن کھلے ہاتھ سے درست جگہ پر منافع بخش سرمایہ کاری کی اور اس انویسٹمنٹ کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا‘ لیکن انہیں اس دوران ایسے حالات سے کبھی واسطہ نہ پڑا جن سے وہ آج کل گزر رہے ہیں۔ جہانگیر ترین سیاستدان بھی ہیں لیکن ان کا کاروباری تجربہ ان کے سیاسی تجربے سے نہ صرف یہ کہ بہت زیادہ ہے بلکہ کاروبار ان کی پہلی ترجیح بھی ہے۔ رسک لینا سیاست کا حصہ ہے لیکن بزنس مین جہانگیر ترین بہرحال یہ رسک لینے پر تیار نہیں۔ وہ ملک سکندر حیات بوسن والی محفوظ سیاست کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں وہ سب کچھ یاد رکھنا چاہیے جو ملک سکندر بوسن کے ساتھ ہوا تھا۔
ملک سکندر بوسن 2013 کے الیکشن میں ملتان کے حلقہ این اے 151 ملتان چار سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد ازاں اسی جماعت کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دور میں وہ پورے پانچ سال اس وزارت کے مدارالمہام رہے۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو انہوں نے کئی وزارتوں میں ردوبدل کیا‘ مگر سکندر بوسن ان وزرا میں شامل تھے جن کی وزارت کو نہ چھیڑا گیا۔ 2013 میں سکندر بوسن نے الیکشن میں چھیانوے ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے بڑے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی نے ستاون ہزار سے زائد ووٹ لئے اور پی ٹی آئی کی طرف سے انتہائی غیر معروف اور اس حلقے کیلئے بالکل اجنبی امیدوار سلمان علی قریشی نے چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے۔ سلمان قریشی کا تعلق حالانکہ مظفر گڑھ سے تھا اور اس حلقے میں اپنی وراثتی زمین کے باعث یہاں سے امیدوار بن گئے تھے‘ لیکن انہیں ٹکٹ ملنے کی واحد اصل وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے پاس اس حلقے سے تب کوئی اور بہتر امیدوار نہیں تھا۔
2018 میں یہ ہواکہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کی طرف سے تو حسب سابق عبدالقادر گیلانی ہی امیدوار تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار سکندر بوسن محفوظ گیم کھیلنے کے چکر میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے عطا کی گئی وزارت سے آخری دن تک لطف اندوز ہونا چاہتے تھے اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی لینا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو ان کی چالوں کا اندازہ ہورہا تھا‘ مگر ان کے پاس بھی چونکہ اس حلقے سے کوئی اور تگڑا امیدوار نہیں تھا‘ لہٰذا وہ بھی ‘تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘ کے مطابق منتظر تھے کہ کیا بنتا ہے؟ ادھر دوسری طرف عجب تماشا لگا ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ کیلئے اس حلقے سے دو امیدوار تھے: سکندر حیات بوسن اور ملک احمد حسین ڈیہڑ۔ اب اس حلقے کا نمبر تبدیل ہو چکا تھا۔ 2018 میں یہ حلقہ این اے 151 ملتان چار کے بجائے این اے 154 ملتان ایک ہو چکا تھا۔
ملک سکندر حیات بوسن اپنی وزارت کے تناظر میں محکمہ زراعت کی جانب سے اپنی متوقع حمایت و نامزدگی کے طفیل بہت زیادہ پُراعتماد تھے کہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ انہیں ہی ملے گا۔ دوسری طرف احمد حسین ڈیہڑ بھی اپنا پورا زور لگائے ہوئے تھے کہ ٹکٹ انہیں ملے۔ اس حلقے سے پہلے پی ٹی آئی کا پرانا اور نظریاتی کارکن عون عباس بپی بھی قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا امیدوار تھا مگر جب اس حلقے میں دو ہیوی ویٹ پہلوانوں کے مابین رن پڑا تو وہ ایک طرف ہوگیا۔ یہ ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ تھا اوراپنے اسی فیصلے کے طفیل عون عباس بھی پہلے ایم ڈی بیت المال بنا اور بعد ازاں سینیٹر بن گیا۔ ملک سکندر بوسن اوپر سے نازل ہونے والی امداد کی امید میں ٹکٹ کے منتظر تھے۔ اسی امید کے طفیل نہ انہوں وزارت چھوڑی اور نہ ہی تب کے دستور اور فیشن کے مطابق پی ٹی آئی کا سرخ و سبز پٹکا گلے میں ڈال کر پی ٹی آئی میں شرکت کا اعلان کیا۔ ویسے ان کا اعتماد بے جا نہ تھا کیونکہ ایک بار تو پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر ان کا نام ٹکٹ ہولڈرز میں آ بھی گیا مگر سکندر بوسن نے باقاعدہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان نہ کیا۔ احمد حسین ڈیہڑ بسیں بھر کر بنی گالہ جا پہنچا اور خان کے گھر کے دروازے پر دھرنا دے دیا۔ ڈیہڑ کے کئی روز تک جاری دھرنے کے جواب میں بوسن کی احتیاط پسندی اور گومگو کی کیفیت نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ مسلم لیگ (ن) نے اس دوران اپنا ٹکٹ پی ٹی آئی کے گزشتہ الیکشن والے امیدوار سلمان قریشی کو دے دیا۔
پی ٹی آئی کے امیدوار احمد حسین ڈیہڑ نے اس حلقے سے چوہتر ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی۔ پیپلز پارٹی کے سید عبدالقادر نے چونسٹھ ہزار ووٹ لئے۔ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کی جانب سے چالیس ہزار ووٹ لینے والے سلمان قریشی نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پہلے سے نصف یعنی بیس ہزار ووٹ لئے۔ محتاط اور محفوظ گیم کھیلنے والے ملک سکندر بوسن نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینتیس ہزار ووٹ لئے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ اگر وہ بروقت فیصلہ کر لیتے تو مجھے یقین ہے‘ آج بھی اسمبلی میں ہوتے مگر بہت زیادہ چالاکی اور ہوشیاری کبھی کبھی آپ کو مروا دیتی ہے۔
جہانگیر ترین ماشا اللہ خود بہت سمجھدار ہیں اور کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست کے اسرارورموز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں‘ لیکن بعض اوقات کسی خاص مقام پر سیاست اور کاروبار کے ڈائنامکس ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہو جاتے ہیں۔ سیاست میں آپ کو کبھی کبھار رسک بھی لینا پڑتا ہے، اگر نہ لیں تو بندہ پہلے سے تیسرے نمبر پر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جہانگیر ترین بھی سچے ہیں۔ انہیں شاید اندازہ ہو چکا ہے کہ ملک عزیز میں سیاست مکمل طور پر کاروبار بن چکی ہے اور کاروبار میں رسک لینا حماقت ہے۔