بندہ پریشان نہ ہو تو بھلا کیا کرے؟

چیزوں کا آدھا یا نامکمل علم بندے کو بڑا خوار کرتا ہے اور یہی حال اس عاجز کا ہے۔ اب یا تو بندہ قانون کا ماہر ہو یا پھر مکمل لاعلم ہو تو آسانی رہتی ہے لیکن یہ جو تھوڑی سی شد بد اور اس شد بد کے طفیل اندر مچنے والی کھد بد نے بڑا عاجز کر رکھا ہے۔ سوالات ایسے ایسے ہیں کہ چین نہیں لینے دیتے۔ حالات ایسے ہیں کہ ہر روز نئے سے نیا سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور پریشانی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اوپر سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی سوال کا کوئی حتمی جواب بھی کہیں سے نہیں ملتا۔ ایک زمانہ تھا‘ عدالتی فیصلے نظیر ہوا کرتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بعض فیصلے میرے جیسے معمولی علم والے شخص کیلئے نظیر تو نہیں تاہم پریشانی بڑھانے میں بے نظیر ضرور ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ الیکشن والے معاملے میں عدالت عالیہ نے قرار دیاکہ سپیکر کا فیصلہ جیسا بھی ہو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا لیکن اس فیصلے کے چند روز بعد ہی قومی اسمبلی میں قائم مقام سپیکر قاسم خان سوری کا دیا گیا فیصلہ غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔ اگر پہلے والے فیصلے میں سپیکر کی رولنگ اور فیصلے کی حدود کا تعین کرتے ہوئے کئے جانے والے فیصلے کی قانونی اور آئینی حیثیت کو واضح کر دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس عاجز کو اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آئین ان چیزوں کے بارے میں از خود اتنا واضح کیوں نہیں کہ ہر بات کا حل اسی میں مل جائے اور آئینی معاملات ہر بار عدالت میں نہ لے جانے پڑیں کہ ان کی تشریح وہاں سے کروائی جائے۔ بنیادی طور پر آئین سازی، اس میں ترامیم، بہتری اور غیر حل شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر اس کا حل نکالا جائے۔
میں صرف ایک مثال دوں گا‘ آئین میں یہ درج ہے کہ وزیراعظم کوئی بھی ایڈوائس صدر مملکت کو بھیجے گا تو صدر مملکت اس کو پندرہ دن منظور کرے گا۔ اس شق میں آگے یہ بات طے ہے کہ اگر صدر مملکت وزیراعظم کی بھجوائی گئی ایڈوائس کو قبول نہیں کرے گا تو پندرہ دن کے بعد وہ ایڈوائس واپس وزیراعظم کے پاس آئے گی اور دوبارہ بھیجنے کی صورت میں اگر صدر اسے دس دن میں منظور نہیں کرتا تووہ ایڈوائس دس دن گزرتے ہی ازخود منظور ہو جائے گی۔ دوسری طرف آئین یہ کہتا ہے کہ قومی اسمبلی کے کل ارکان کی کم از کم بیس فیصد تعداد وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتی ہے اور اس تحریک کے پیش ہونے کے سات دن کے اندر اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا لازمی ہے اور اس تحریک پر تین دن بحث ہو سکتی ہے۔ اب آئین اس کے بعد خاموش ہے کہ اگر سپیکر سات دن کے اندر اندر قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلاتا تو کیا ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس کے بعد یہ شق شامل ہوکہ اگر سپیکر سات دن کے مقررہ وقت کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلاتا تو یہ اجلاس از خود بلایا گیا تصور ہوگا۔ اگر ایسا ہوتو سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کے ارکان کو اپنے اس حق کے حصول کیلئے عدالت نہ جانا پڑے اور پارلیمنٹ کو عدالتوں میں سائل بننے سے نجات مل جائے لیکن سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کے ارکان کو قانون سازی کے بجائے ترقیاتی فنڈز، تھانیداروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ اور علاقے میں پٹواریوں کی تعیناتی وغیرہ جیسے بلند مقاصد کیلئے کی جانے والی بھاگ دوڑ سے ہی فرصت نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ‘ جو سپریم ہے‘ فریادی بن کر کھڑی ہوتی ہے۔ اپنے اختیارات کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں تو پھر یہی ہوتا ہے۔
ہمارے آئین میں تمام پاکستانی شہریوں کو بلا تخصیص برابری کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل آٹھ تا اٹھائیس ہر پاکستانی شہری کو اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ آرٹیکل دس اے ہر پاکستانی کو اس کے قانونی حقوق اور اس میں مکمل عدل و انصاف کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے لیکن کیا ایسا ہے؟ دور کیوں جائیں! کیا جیل میں موجود ہر سزا یافتہ بیمار قیدی کو عمومی طور پر‘ خواہ اس کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو‘ عمومی طور پر جیل سے باہر اس کی مرضی کے ہسپتال میں اور خصوصی طور پر بیرون ملک علاج کیلئے جانے کی سہولت میسر ہے؟ کیا اس ملک میں ہر کسی کو یہ سہولت میسر ہے کہ وہ کسی سزا یافتہ قیدی کی بیرون ملک سے بروقت واپسی کی پچاس روپے کے اشٹام پیپر پر ضمانت دے، قیدی بیرون ملک جا کر واپسی سے انکاری ہو جائے اور کوئی بندہ ضامن سے یہ پوچھنے تک کی زحمت نہ کرے کہ بھائی صاحب! آپ نے جس سزا یافتہ مجرم کی واپسی کی ضمانت دی تھی وہ تو واپسی سے منکر ہو گیا ہے اب اس کو بھگتیں۔ کیا اس مملکت میں یہ ممکن ہے کہ بیمار سزا یافتہ شخص کی تیمارداری کے جواز پر کسی شخص کو ضمانت پر رہائی ملے، بیمار بیرون ملک کھسک جائے اور تیماردار بغیر بیمار کے تیمارداری کی بنیاد پر دی گئی ضمانت سے لطف اندوز ہوتا رہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آئین کے آرٹیکل دس اے کے تحت حاصل قانونی حقوق کے تحت مجھ جیسے عام اور بے وسیلہ شخص کو عدالتوں سے اربوں روپے کی کرپشن کے کیسوں میں ضمانت ملنے پر اور مقدمات میں بریت سے قبل کسی سترہ گریڈ کی سرکاری نوکری کیلئے ہی منتخب کر لیا جائے؟ قارئین! معاف کیجیے گا میں نے صرف سترہ گریڈ کی سرکاری نوکری کا ذکر کیا ہے وزارت عظمیٰ کا نہیں کیا کیونکہ جب بات بے وسیلہ شخص کی ہوگی تو اس کے لیے وزارت عظمیٰ کی اہلیت کا سوال نہیں اٹھے گا۔ آخر وہ بے وسیلہ کیسے ہو سکتا ہے جو وزارت عظمیٰ کی اہلیت کا حامل ہو‘ بھلا یہ مرتبہ کسی عام آدمی کو کیسے مل سکتا ہے؟
یہاں عام آدمی کیڑے مکوڑے ہیں۔ گزشتہ دنوں اخبار میں ایک خبر تھی کہ جیل میں قید ایک کینسر کے مریض قیدی کی جیل سے باہر علاج کیلئے کی جانے والی رٹ جب تک شنوائی کیلئے جج صاحب کی میز پر آئی تب اس مریض قیدی کو قید حیات سے نجات ملے شاید ایک سال ہو چکا تھا۔ اسی طرح محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل و حرکت کیلئے دائر کی جانے والی درخواست انصاف کے سلسلے میں اپنی باری پر بحث کیلئے پیش ہوئی تو آزادانہ نقل و حرکت کا طالب تمام دنیاوی پابندیوں سے آزاد ہو چکا تھا۔
سرکار بنام کالا ایک ایسا کیس ہے جو بندے کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ملزم کالا کو قتل کے جرم میں سیشن کورٹ سے سزائے موت ہوگئی۔ یہ سزا ہائیکورٹ سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک برقرار رہی اور بالآخر اسے پھانسی ہوگئی۔ اس میں اصل بات یہ ہے کہ اس کی سزائے موت سے قبل ایک ایس ایس پی (غالباً میجر مبشر) نے لکھ کردیا کہ وہ وقوعہ والے روز پولیس کی حراست میں تھا مگر اسے محض فائل پر لکھے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر پھانسی ہوگئی۔ ضابطہ فوجداری میں ایک سیکشن 539b ہے جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حالات کی پڑتال کیلئے خود بھی موقع پر جایا جا سکتا ہے مگر یہ سیکشن شاید ہی کبھی استعمال ہوا ہو۔ ابھی حالیہ چند دنوں میں ایسے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ میرے جیسا پہلے سے ہی پریشان حال بندہ مزید پریشان ہوگیا ہے۔ ایک طرف مولوی اقبال حیدر کی حفظ ماتقدم کے طور پر دی گئی درخواست پر رات بارہ بجے عدالت لگ گئی دوسری طرف میاں نواز شریف کو متوقع ڈپلومیٹک پاسپورٹ کے اجرا کو روکنے کی درخواست پر درخواست گزار کو قبل از وقت قسم کی درخواست بازی کے ذریعے عدالت کا وقت ضائع کرنے کے جرم میں مبلغ پانچ ہزار روپے جرمانہ ہو گیا ہے۔ اب بندہ پریشان نہ ہو تو بھلا اور کیا کرے؟