ہماری آزمائش کب ختم ہو گی؟

ملک میں اقتدار تبدیل ہوا۔ آئین اور جمہوریت کی جیت ہوئی۔ عمران خان کے جمہوری طریقے سے فارغ ہونے کے نتیجے میں قوم کو جو جمہوریت نصیب ہوئی ہے اس کا ثمر یہ ہے کہ مرکز میں ابا جی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ان کا برخوردار حکمران ہو گا۔ اسلام آباد کے ذریعے میاں شہباز شریف پاکستان اور لاہور میں بیٹھ کر حمزہ شہباز پنجاب کی حکومت کو چلائیں گے۔ پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری سیاسی پارٹی ہونے کی دعویدار مسلم لیگ (ن) کے پاس خاندانِ شریفاں کے علاوہ ایک بندہ بھی ایسا نہیں جو ملک و قوم کی حکمرانی کا اہل ہو۔ کیا جمہوریت ہے اور کیا اس ملک کی قسمت ہے۔

عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو گئے اور ملک میں جمہوریت کا بول بالا بھی ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسا جمہوری پارلیمانی سسٹم ہے جو اپنی کیا جلوہ گری دکھا رہا ہے؟ ایک سو چوہتر ارکان ِاسمبلی ایک ایسے شخص کو اس ملک کا وزیراعظم نامزد کر رہے ہیں جس کے دامن پر مقصود چپڑاسی کی بھیجی گئی ٹی ٹیوں کے چھینٹے ابھی خشک نہیں ہوئے۔ ادھر یہ عالم تھا کہ پنجاب پر عمران خان نے تاریخ کا نااہل اور فارغ ترین شخص وزیراعلیٰ بنا کر مسلط کیا تھا تو ادھر اب یہ عالم ہے کہ اب اس عہدے کے لیے وہ شخص امیدوار ہے اور صرف امیدوار ہی نہیں متوقع وزیراعلیٰ بھی ہے جس کی کرپشن کی کہانیوں کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دورانِ تفتیش جب حمزہ شہباز کے والد ِگرامی قبلہ شہباز شریف سے مختلف بینک اکاؤنٹس میں لگنے والی کروڑوں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے بارے میں سوال کیا گیا تو شہباز شریف صاحب نے بڑے مزے سے جواب دیا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ یہ بات میرے بیٹوں سے پوچھی جائے۔ یعنی ان بے نامی ٹرانزیکشنز کے بارے میں خود میاں شہباز شریف کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا اور یہ ہماری جمہوریت کا حسن ہے کہ منی لانڈرنگ کے کیس میں ضمانت پر آزاد گھومنے والے باپ اور بیٹا اب پاکستان کے وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘فی الحال یہ انتقام پاکستان کی عوام سے لیا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں کس قسم کی سیاست کا چلن ہے اور کس طرح کی جمہوریت ہے؟ ہر پارٹی کو رضا کار اس قسم کے ورکرز کی کثیر تعداد میسر ہے جو بلا سوچے سمجھے اپنی اپنی لیڈر شپ کی اندھی تقلید میں مبتلا ہیں۔ کوئی ورکر اپنی لیڈر شپ سے کوئی سوال نہیں کرتا‘ اس کے کسی بھی فیصلے پر اعتراض نہیں کرتا‘ اس کے کسی اقدام پر غور و فکر نہیں کرتا اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتا۔ اس دنیا میں بہت سے مذاہب کے اکابرین کو بھی ایسے بے لوث اور مخلص پیروکار نصیب نہیں ہوئے جتنے مخلص اور بے لوث کارکن ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو نصیب ہوئے ہیں۔ یقین نہ آئے تو میاں نواز شریف‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو دیکھ لیں۔ تاہم اس معاملے میں جتنا مزہ الطاف حسین نے اٹھایا ہے اس کی تو تاریخ عالم میں بھی مثال کم ہی ملے گی۔ جس عقیدت اور احترام سے ان کے ورکرز ان کا ٹیلی فونک خطاب سنتے تھے اتنی عقیدت اور وار فتگی سے تو بدھ بھکشو اپنے دلائی لامہ کا خطاب بھی نہیں سنتے ہوں گے۔ یہ سب کچھ ہماری جمہوری سیاسی پارٹیوں میں رائج ڈکٹیٹر شپ اور کارکنوں کی احمقانہ تابعداری کا حسین امتزاج ہے اور اس کے باوجود ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔

کل تک میاں نواز شریف شدید بیمار تھے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ ان کے پلیٹ لیٹس المعروف ان کی پلیٹیں انتہائی خراب ہو چکی تھیں اور اتنی کم پلیٹوں کے ساتھ ان کا زندہ رہنا ایک کرشمہ تھا اور وہ اس حالت میں نہ صرف یہ کہ وہ سفر کے قابل نہیں تھے بلکہ ایسا کرنے میں ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق تھا؛ تاہم یہ صرف اور صرف جمہوریت کا ثمر ہے کہ جیسے ہی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں جان پڑ گئی میاں نوازشریف کے پلیٹ لیٹس میں اضافہ ہوتا گیا جیسے ہی عدم اعتماد کیلئے درکار ایک سو بہتر ارکان اسمبلی کی تعداد پوری ہوئی میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس بھی نہ صرف پورے ہو گئے بلکہ نارمل سے بھی زیادہ ہو گئے اور وہ فوری طور پر سفر کے قابل بھی ہو گئے اور اس جمہوری آپریشن کا اثر صرف اکیلے میاں نواز شریف پرہی نہیں ہوا بلکہ عدم اعتماد کی اس ہیوی ڈوز کا اثر قبلہ اسحاق ڈار پر بھی اسی طرح ہوا جس طرح میاں نواز شریف پرہوا اور ان کی کمر کا درد عدم اعتماد کی کامیابی کے جادوئی علاج سے بالکل غائب ہو گیا ہے اور وہ بھی چند روز میں پاکستان قدم رنجہ فرمائیں گے۔

عدم اعتماد کی کامیابی نے جہاں اقتدار سے محروم سیاستدانوں کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے اسی طرح اس تحریک کی کامیابی نے بیرونِ ملک پناہ گزین بھگوڑے سیاستدانوں کی جاں بلب حالت کو یکدم صحت کاملہ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ دنیا کی پہلی تحریک عدم اعتماد ہے جس نے بہت سے لوگوں کی سیاسی محرومیوں اور صحت کے جاں لیوا عارضوں کو یکساں آرام بخشا ہے۔ اس جہانِ فانی میں اس سے قبل ایسی جادو اثر تحریک عدم اعتماد بھلا چرخِ ناہنجار نے کب دیکھی ہو گی؟

پنجاب کی بدقسمتی دیکھیں کہ عثمان بزدار سے جان چھوٹی تو حمزہ شہباز مسلط ہو جائے گا۔ عثمان بزدار حکمرانی کے لیے درکار قابلیت سے یکسر محروم شخص تھا جسے عمران خان نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی والے صوبے پر لاد دیا اور اب جو متوقع وزیراعلیٰ ہے وہ صرف ایک خوبی کا حامل ہے کہ وہ آلِ شریف سے تعلق رکھتا ہے اور بس۔ اگر دیگر معاملات کاجائزہ لیں تو حمزہ شہباز اور عثمان بزدار میں کم از کم اس عاجز کو تو صرف ایک فرق دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہ عثمان بزدار کی بدعنوانیوں اور کرپشن کا علم ہمیں ان کے آنے کے بعد ہوا جبکہ حمزہ شہباز کے بارے میں اس شہرت کا ہمیں پہلے سے ہی علم ہے۔

ہم بھی کیا بدقسمت لوگ ہیں کہ کبھی ہمیں ملتان میں یہ چوائس ملتی ہے کہ ہم حاجی بوٹا اور ملک صلاح الدین میں سے کسی ایک شخص کا اپنے لیے رکن قومی اسمبلی کا انتخاب کر لیں اور کبھی یہ تبدیلی نصیب ہوتی ہے کہ عثمان بزدار کے بعد ہمیں حمزہ شہبازبھگتنا پڑے گا۔ عثمان بزدار اگر عمران خان کی ضد اور انا نہ ہوتا تو وہ بزدار قبیلے کی سربراہی کے زور پر کسی تحصیل کا ناظم ہوتا اور حمزہ شہباز اگر فرزندِ شہباز شریف نہ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ گوالمنڈی سے مخصوص نشست پر کونسلر ہوتا۔ لیکن پنجابی کی کہاوت ہے کہ ”روپ رون‘ تے کرم کھان‘‘ وہ میاں نواز شریف کے بھتیجے اور میاں شہباز شریف کے فرزند ِارجمند ہیں‘ لہٰذا وہ ایک انگریزی لفظ By Defaultکے مطابق ہمارے حکمران بننے کیلئے تمام خصوصیات رکھتے ہیں جو موجودہ سیاسی منظرنامے میں ہمارا مقدر ہیں۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اور اب مولانا اسعد محمود‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ پھر بے نظیر بھٹو اور اب زرداری سے ہوتے ہوئے بلاول زرداری تک۔ عبدالغفار خان سے ولی خان اور پھر اسفند یار سے ایمل ولی کا سفر ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے تابناک جمہوری باب ہے۔ اللہ جانے ہماری آزمائش کب ختم ہوگی؟