کُج شہر دے لوگ وی ظالم سن

کبھی کبھی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا‘ کیسے انسانی قسمت بدلتی ہے اور وہ بھی صرف پاکستان میں ‘جیسے اسحاق ڈار واپس پہنچ گئے ہیں۔جیسے اچانک گئے تھے ویسے ہی اچانک واپسی ہوئی۔مریم نواز بھی بری ہو گئیں۔اب اگلی باری نواز شریف کی ہے۔
ان چھ ماہ میں اتنا کچھ بدل گیا ہے کہ یقین نہیں آرہا۔عمران خان وزیراعظم تھے اور کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ حالات ہوں گے۔ کل تک شریف خاندان عدالتوں میں دھکے کھا رہا تھا ‘ آج عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ ہوسکتا ہے الزامات کی نوعیت مختلف ہو۔ شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات تھے اور انہیں جرم ثابت ہونے پر سزائیں بھی ہوئیں۔ عمران خان پر عدالت کی توہین کے الزامات ہیں۔ اس ایشو کو سیٹل کرنے کیلئے وہ خاتون جج کی عدالت میں تشریف لے گئے لیکن جج صاحبہ کرسی پر موجود نہ تھیں۔کس کا قصور ہے کہ کل کے ملزم یا مجرم آج دوبارہ اس ملک کے سربراہ بن گئے ہیں؟ جس پر منی لانڈرنگ کے الزامات تھے اور جس نے نیب کے سابق چیئر مین جنرل (ر) امجد کے ساتھ لاہور میں بیٹھ کر ڈیل کی تھی اور شریف خاندان کے خلاف بیانِ حلفی دے کر آزادی لی تھی وہ آج ملک کے خزانوں کا دوبارہ مالک ہے۔ جو کچھ دن پہلے تک مفرور تھا وہ آج ملک کا خزانہ چلائے گااور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی آمد کی اطلاع پا کر ڈالر بھی فورا ًدس روپے نیچے آگیا۔ مطلب ڈالر کو بھی عزت راس نہیں آتی‘ اسے ڈار ہی راس آتا ہے۔
یہ طے ہے کہ شریف آدمی اس ملک کو نہیں چلا سکتا۔ آپ کو مارکیٹ فورسز سے سختی سے پیش آنا پڑتا ہے ورنہ وہی حال ہوتا ہے جو مفتاح اسماعیل کا ہوا‘ جو محض باتیں کرتے کرتے ڈالر کو تقریبا ًڈھائی سو روپے تک لے گئے۔ ہر دفعہ ڈالر اوپر جاتا تو مفتاح کہتے اب کی بار مار کے دکھا‘ یوں وہ ڈالر کو 178 روپے سے تقریبا ڈھائی سو روپے تک لے گئے۔ بینکوں نے الگ سے ڈالر کا ریٹ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کا بھٹا بے شک بیٹھ جائے اس کی پروا نہیں۔ سب نے کہا ڈالر کا کھیل کھیلتے جائو۔ ملک یا عوام کو بعد میں دیکھیں گے۔ شاید دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہو کہ جس شاخ پر آپ خود بیٹھے ہوں اسی کو کاٹنا شروع کر دیں۔ اس ملک میں تو یہ رواج ہے۔ کوئی اینٹ اٹھا کر دیکھ لیں ‘آپ کو نیچے سے سکینڈل‘ فراڈ یا کرپشن ملے گی۔ شریفوں کو دیکھ لیں تو پانچ براعظموں میں ان کی جائیداد ہے‘جو انہوں نے پاکستان سے کمائی۔ سب کچھ چھپا کر باہر لے گئے تاکہ ٹیکس نہ دینا پڑے۔ لندن کے فلیٹس 1992 ء میں کسی پراکسی کمپنی کے ذریعے خریدے اور بعد میں قطری خط کے ذریعے جواز ڈھونڈا۔ اس طرح اسحاق ڈار سے جب ایک ارب روپے کا نیب نے پوچھا تو وہ دبئی کے ایک حکمران کا خط لے آئے جو نیب کو دے کر معاملہ سیٹل کرا یا۔ شیخ صاحب نے ایک لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ میں نے جناب ڈار صاحب کو یہ ایک ارب روپے ان کی خدمات کے عوض ادا کیے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ کوئی بینک ٹرانزیکشن‘ کوئی سیلری سلپ‘ کوئی ٹرانسفر کچھ نہیں۔ بڑا لطیفہ تو یہ ہوا کہ اس لیٹر پیڈ پر دبئی کے حکمران کے نام کے سپیلنگ تک غلط تھے۔ آگے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیا کھیل کھیلا گیا ۔
یہ ملک صرف اس وقت ایلیٹ کے رہنے کے قابل ہے جب یہاں آپ وزیر یا وزیراعظم ہوں یا بڑے سرکاری افسر ہوں اور آپ کے بچے باہر سیٹل ہوں۔ آپ یہاں سے تگڑا مال کمال کر انہیں بھجوا رہے ہوں یا کنڑیکٹس اور ڈیل میں بھاری پیسہ کما کر منی لانڈرنگ کررہے ہوں اور کچھ عرصہ بعد وہی پیسہ بیرون ملک سے زرمبادلہ کے نام پر اپنے دفتر یا گھر کے ملازمین کے نام پر اکاؤنٹ کھلوا کر بھجوا دیں اور اس بلیک منی کو وائٹ کر لیں۔ یہ چکر سب چلا رہے ہیں اور چلاتے رہیں گے۔ہاں اگر ان پر مشکل وقت آن پڑے تو فوراً باہر نکل جائیں گے اور پھر اپنے وقت کا انتظار کریں گے۔ بینظیر بھٹو بھی پاکستان چھوڑ گئیں جب نواز شریف نے ان کے خلاف کارروائیاں کیں۔ نواز شریف کے اپنے خلاف کارروائیاں ہوئیں تو وہ بھی سعودی عرب پہنچ گئے۔ اب وہ لندن میں ہیں۔جب وہ جیل سے لندن پہنچے اور انہوں نے وہاں سے تقریریں شروع کیں توپاکستان میں مقیم ان کے چند لیڈر ڈر گئے۔ ایک بڑے لیڈر نے مجھے کہا کہ میاں صاحب خود ہر دفعہ جدہ یا لندن جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں سے چے گویرا بن کر ہمیں کہتے ہیں کہ لڑ و‘ خود یہاں بیٹھ کر نہیں لڑتے‘ بھائی اگر ہمت ہے تو ہمیں یہاں جیل میں بیٹھ کر لیڈ کرو۔میں نے نواز لیگ کے اس لیڈر سے کہا تھا کہ ان کی اس سیاست سے آپ بھی فائدہ مند ہیں۔ آپ بھی تو ان سے اس لیے چپکے ہوئے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے وزیر بنتے ہیں۔
بہرحال اس ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کل کے حکمران عمران خان آج عدالتوں میں ملزم بن کر پیش ہورہے ہیں اور کل کے مفرور آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ اگر ان دونوں کے حامیوں سے پوچھیں تو وہ ان دونوں کو سچا ثابت کر دیں گے اور آپ کو جھوٹا۔کوئی یقین کرے گا ابھی چند ماہ پہلے تک زرداری صاحب چالیس ارب کے فیک اکاؤنٹس میں کئی ماہ جیل میں رہے۔ آج وہ کنگ میکر ہیں اور انہوں نے عمران خان کا تختہ الٹ دیا۔اب عمران خان فرماتے ہیں کہ زرداری اور شریفوں نے نیب کے قوانین میں تبدیلیاں کر کے اپنے مقدمے ختم کرا لیے۔ اپنا چیئرمین نیب لگا کر سب کچھ صاف کرارہے ہیں۔ نیا چیئر مین وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے لگانا ہوتا ہے‘ شہباز شریف نے یہ مشورہ ایم این اے راجہ ریاض سے کیا جو پی ٹی آئی کے باغی ایم این اے ہیں۔ اگر عمران خان آج اپوزیشن میں ہوتے تو وہ ایسے لوگوں کو نیب کا چیئرمین لگانے سے روک سکتے تھے جن کے بارے سب کو یقین ہو کہ وہ شریفوں کے وفادار ہیں۔ آپ نے خود ہی شریفوں اور زرداری کے لیے فورم چھوڑ دیا کہ وہ جو جی چاہے کرتے رہیں۔
عمران خان کو ان کے مشیروں نے مروایا جنہوں نے مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ توڑ دیں اور خود استعفیٰ دے کر ہاؤس کو اکیلا چھوڑ کر زرداری اور شریف کا کھیل آسان کر دیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے عمران خان سے اسمبلی تڑوائی اور پھر اسمبلی سے استعفے دلوائے وہ ان کے دشمن تھے۔ اگر آپ نے پارلیمانی سیاست کرنی ہے تو پھر آپ کسی صورت پارلیمنٹ کا میدان نہیں چھوڑسکتے۔ بینظیر بھٹو نے 1990ء اور پھر 1997ء کی اسمبلی نہیں چھوڑی تھی حالانکہ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کے ساتھ فراڈ ہوا تھا۔ اس طرح نواز شریف نے پرویز مشرف دور میں اپنے ایم این ایز کو اسمبلیوں میں بھیجا حالانکہ صرف انیس یا بیس جیتے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں رہیں گے تو relevant رہیں گے۔ مان لیا عمران خان کو پارلیمنٹ سے باہر نکل کر بہت شہرت ملی‘ طاقت ملی لیکن وہ شریفوں کا کام آسان کرگئے جنہوں نے اپنے خلاف نیب کے مقدمے ختم کرائے اور قوانیں میں تبدیلیاں کیں اور مرضی کی تقرریاں کرائیں ‘جو خان صاحب ہاؤس میں ہوتے تو ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھیں۔ اب خان صاحب سڑکوں پر ہیں اور کل کے ملزم جو جیل میں تھے وہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔اب کل کو جب نگران وزیراعظم کی تقرری کا وقت آئے گا تو شہباز شریف پھر راجہ ریاض سے پوچھ کر لگا لیں گے جیسے چیئرمین نیب لگا لیا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔عمران خان خود بھی کم نہیں لیکن رہی سہی کسر ان کے مشیروں نے پوری کر دی ہے۔ منیر نیازی کا شعر
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی