پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
پیارے انور راٹول کہاں ہو؟
ان دنوں میں بہت افسردہ ہوں، اس افسردگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آموں کے موسم کا چل چلائو ہے اللہ تعالیٰ نے ہم گنہگاروں کے لئے بہت نعمتیں مہیا کی ہیں مگر آم کا مرتبہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم لوگ کسی بڑے سے ٹب میں برف ڈالتے اور اسے آموں سے بھر دیتے تھے اس زمانے میں صرف چوسنے والے آم ہوتے تھے اس وقت یہ انور راٹول، سندھڑی، لنگڑا اور دسہری ،چونسا سہارنی وغیرہ کہاں تھے ان کے فضائل اپنی جگہ لیکن چوسنے والے آموں کا بھی کوئی جواب نہیں تھا یار لوگ اس کی گٹھلی اور چھلکا الگ رکھے جاتے تھے ان کی نظر طرف اس کے گودے پر ہوتی تھی میں نے آم چوسنے کے بہت ممنوعہ مناظر دیکھے ہیں اور اس کے مرتکب صاحبان کو بہت سمجھایا کہ کھانے پینے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں مگر وہ بہت دلجمعی سے اپنے کام میں لگے رہتے اور میری بات سننا توکجا اس دوران میری طرف دیکھنا بھی انہیں گوارا نہیں تھا بہرحال ہم سب آموں کا پورا ٹب کھا جاتے معذرت چوس جاتے اور اس کے بعد ہمیں کوئی بزرگ بتاتا کہ اس سے معدے میں گرمی پیدا ہوتی ہے چنانچہ اس کے بعد کچی لسی پینی چاہئے سو اس کے بعد نمکین کچی لسی کی شامت آجاتی ۔
مگر اب تو آموں کی دنیا ہی اور ہے ایک سے بڑھ کر ایک ورائٹی متعارف کرائی گئی ہے اور کوئی کسی سے کم نہیں اور یہ لنگڑا بھی اگرنہ ہوتا تو پتہ نہیں کس کس کو پیچھے چھوڑ جاتا تاہم میرا عشق انور راٹول سے ہے اللہ اللہ اس کا لطف کسی شاعر کی غزل اور کسی موسیقار کی تان سے کم نہیں ۔جی چاہتا ہے بار بار چوسا جائے چنانچہ جو دوست میری اس کمزوری سے واقف ہیں وہ سیزن میں مجھے اس من وسلویٰ سے دوری اختیار کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے ۔روزانہ کوئی نہ کوئی بلٹی آئی ہوتی ہے جب میں سفارت کار تھا حکومت پاکستان کی طرف سے وہاں کے زعماء کے لئے آموں کی پیٹیاں تحفے کے طور پر آتی تھیں اور مجھے خوشی ہوتی تھی کہ ان میں سے بیشتر کو یہ پھل پسند آتا تھا اور کچھ تو آموں کے اگلے سیزن کا انتظار کرنے لگتے۔
ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں وہ اس وقت تک انڈین آم کھاتے ہیں جب تک پاکستانی آم مارکیٹ میں نہیں آتا میں نے لندن میں یہ منظر دیکھا ہے کہ پاکستانی آم کے آتے ہی صرف پاکستانی نہیں انڈین بھی اپنے آم کو منہ نہیں لگاتے اور پاکستانی آم کی خوشبو انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے میں نے ایک پاکستانی کو دیکھا جو پاکستان سے سیزن کا یہ پھل کنٹینر میں لندن لاتا اور بیچ باچ کر واپس پاکستان چلا جاتا، میں نے اس سے پوچھا تم اتنی رقم خرچ کرکے آتے ہو کماتے کیا ہو ،بولا جناب یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے، کچھ نہیں، اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ لندن میں اعجاز احمد اعجاز میرے لئے میری پسند کے آم لاتا اور پھر جب میرے ساتھ بیٹھتا تو میرے حصے میں صرف گٹھلیاں آتیں۔ پیرس میں اسد رضوی یہ کام قومی فریضہ سمجھ کر انجام دیتا اور کہیں نہ کہیں سے یہ سوغات ڈھونڈہی لاتا۔ اعجاز احمد اعجاز کا ذکر آیا ہے تو اس کا ایک شعر بھی سن لیں۔
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ ہی نکلے گا
جلائے ہیں بہت سے دیے ہوا کے لئے
اعجاز اب ہمارے درمیان میں نہیں مگر میں اور احسان شاہد جب کبھی اکٹھے ہوتے ہیں اس کی یادیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔
میں آموں کے حوالے سے اب مقطع تک پہنچنے والا ہوں یہ آموں سے میری محبت ہے کہ ان دنوں جب میں جنت کے اس پھل کو رُلتےدیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے جس ریڑھی پر نظر ڈالو وہ آموں سے بھری ہوتی ہے اور ایک گتے پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ڈیڑھ سو روپے کلو، مگر گاہک ٹانواں ٹانواں ہی نظر آتا ہے اس کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ اس کا سیزن ختم ہو گیا ہے اور اب ان کی دونمبر کوالٹی مارکیٹ میں ہے اور سچی بات یہ ہے کہ لذت پر بھی دوسرے پھلوں سے زیادہ ہے دوسری وجہ یہ کہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا فارمولا یہاں بھی کارفرما نظر آتا ہے، جب سپلائی زیادہ ہو جائے اور ڈیمانڈ کم ہو تو قیمتیں گر جاتی ہیں سو غالب ،اقبال اور اکبر الہ آبادی کا یہ مرغوب پھل آج کل اپنے عاشقوں کو یاد کرتا ہے۔ اقبال کو یہ پھل اتنا مرغوب تھا کہ ان کے ڈاکٹر نے انہیں پرہیز کے حوالے سے کچھ اشیائے خوردنی سے پرہیز کے لئے کہا اس میں آم بھی شامل تھا، اقبال نے کہا کہ وہ آم کے بغیر نہیں رہ سکتے اس پر انہیں دن میں صرف ایک آم کھانے کی اجازت دی گئی اگلے دن ڈاکٹر نے دیکھا کہ اقبال ایک آم جس کا وزن ایک کلو تھا سامنے دھرے بیٹھے ہیں اور یوں ڈاکٹر کی ہدایت پر بھی ’’عمل ‘‘ہو گیا اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی ۔
ان دنوں آم کی رخصتی یا بے قدری کہہ لیں موسم کے دوسرے پھل اس جنتی کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!لیکن کیا کیا جائے،ہر عروج کے مقدر میں زوال بھی ہوتا ہے تاہم آم کے سلسلے میں یہ زوال عارضی ہے کہ اگلے موسم میں ایک بار پھر یہ دلوں پر راج کرے گا بلکہ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے ۔1970ء میں امریکہ میں قیام کے دوران میں اس پھل کیلئےترس کر رہ گیا تھا ایک دن ایک شاپ پر میری نظر آم پر پڑی تو مجھے لگا کہ میرا کوئی بچھڑا ہوا دوست مجھے مل گیا ہے یہ میکسیکن آم تھا میں نے جلدی سے خریدا اور جلدی سےگھر پہنچا جب چکھا تو اندازہ ہوا کہ چمکنے والی ہر چیز سونا نہیں ہوتی واللہ اس قدر بدمزہ تھا کہ میں نے اس روز واپس پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا اور صرف ارادہ نہیں کیا واپس چلا ہی آیا اس کے بعد سے میں ہوں اور آم ہیں اس کے ہجر میں زیادہ دیر امریکہ جیسے ملک میں بھی رہا نہ گیا ساری دنیا چھان ماریں میرے جیسا عاشق آپ کو کہاں ملے گا؟