پی ٹی آئی جیتے یا ہارے، سیاسی عدم استحکام بدتر ہونے کا خدشہ ہے

پاکستان تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات طے اور اپنے کارکنوں کو فوج مخالف بیانیے سے دور رکھے بغیر الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے۔

9؍ مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کیخلاف شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے پیش نظر اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد سینئر پارٹی قیادت بہت زیادہ محتاط ہوگئی ہے۔ تاہم، پارٹی کی جانب سے اپنے کارکنوں کی اُس سوچ کے خاتمے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جو 9؍ مئی کے حملوں کا سبب بننے والے فوج مخالف بیانیے سے تاحال زہر آلود ہیں۔

کچھ آزاد مبصرین کا خیال ہے کہ مقبول پاکستان تحریک انصاف کو مقابلے کیلئے مساوی ماحول (لیول پلیئنگ فیلڈ) نہ دینے سے انتخابات متنازع ہو جائیں گے جس سے ملک کو انتہائی ضروری اور مطلوبہ معاشی اور سیاسی استحکام نہیں مل پائے گا۔

جبکہ ڈر ہے کہ پی ٹی آئی گر فوج سے اپنی لڑائی ختم کیے بغیر الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی تو اس سے سیاسی عدم استحکام بدتر ہو جائے پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیریسٹر گوہر علی خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی تو وہ کسی ریاستی ادارے کے ساتھ لڑائی نہیں کرے گی۔

موجودہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے بھی حال ہی میں ایسے ویلاگرز اور سوشل میڈیا کارکنوں سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے جو ریاستی اداروں کیخلاف مہم چلا رہے ہیں۔ تاہم، امریکا میں مقیم ایک ویلاگر، جو عمران خان کی حکومت کے دوران ان سے بہت قربت رکھتے تھے، کو پی ٹی آئی نے اپنے حالیہ آن لائن جلسے میں خطاب کا موقع دیا تھا۔

اسی طرح، پی ٹی آئی اور اس کی کور کمیٹی نے اُس ویلاگر کیخلاف بھی کوئی ایکشن نہ لیا جس نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے حالیہ دورہ امریکا کے موقع پر پاک فوج اور اس کے سینئر کمانڈروں کیخلاف زہر افشانی کی۔ یہ ویلاگر عمران خان کا دوست ہونے کے ساتھ امریکا میں مقیم گلوکار اور واشنگٹن میں پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن بھی ہے۔

پی ٹی آئی اور اس کی کور کمیٹی نے 9؍ مئی کے حملوں میں براہِ راست ملوث افراد کو الیکشن ٹکٹ دینے کے حوالے سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس معاملے پر، پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ جو لوگ قانوناً الیکشن لڑنے کے اہل ہیں انہیں الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ فوجی قیادت کیخلاف ہر طرح کے الزامات عائد کرنے والے عمران خان کی رائے تبدیل ہوئی ہے یا ان کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔

عمران خان نے اپریل 2022 میں اپنی حکومت کو ہٹائے جانے کے حوالے سے سابق آرمی چیف پر امریکی سازش کا ہینڈلر ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے کچھ اہم جرنیلوں بشمول ڈی جی سی آئی ایس آئی پر بھی اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

فوجی تنصیبات پر 9؍ مئی کے حملوں کے بعد عمران خان نے موجودہ آرمی چیف پر ذاتی عناد، اقتدار میں واپسی کا راستہ روکنے اور گرفتاری کے ساتھ پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاؤن کرانے کا الزام عائد کیا تھا۔

عمران خان نے 9؍ مئی کے واقعات کے کئی دن بعد نیم دلی سے اُس دن ہونے والے حملوں کی مذمت کی اور بعد میں ان حملوں کو پی ٹی آئی کیخلاف ہی سازش قرار دیدیا۔

عمران خان کے فوجی قیادت کیخلاف بیانیے نے پارٹی کارکنوں اور پارٹی کے سوشل میڈیا سے جڑے لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کیا، پارٹی کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر فوج، شہداء اور سینئر کمانڈروں کیخلاف مہمات چلائیں۔

دوسری جانب، فوج کی اعلیٰ قیادت، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس اور کور کمانڈرز نے 9؍ مئی کے حملوں کے بعد پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے ٹرائل کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہ کرنے پر فوج پرعزم ہے اور ان افراد کیخلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔

اسی طرح یہ بھی کہا گیا تھا کہ قصور وار افراد کا بدنما چہرا چھپانے کیلئے چلائی جانے والی کوئی مہم، پروپیگنڈا، حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی کوئی مہم کو سزا سے نہیں بچا سکتی۔

فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری کردہ آئی ایس پی آر پریس ریلیز میں خبردار کیا گیا تھا کہ مجرموں اور اشتعال انگیزوں کی قانونی آزمائشیں شروع ہو چکی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف ملک میں انتشار پھیلانے والوں اور ان کے مذموم مقاصد کیلئے چلائی جانے والی نفرت انگیز اور سیاسی سطح پر شروع کی گئی بغاوت کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈوں کے گرد بھی قانون کی گرفت کو سخت کیا جائے۔

اس پس منظر کے ساتھ، پی ٹی آئی کی قیادت کو فوج کے ساتھ اپنا تنازع طے کرنے کیلئے اعتماد سازی کا ہر ممکن اقدام کرنے کا موقع ملا۔

پی ٹی آئی والوں کیلئے سب سے بہترین دستیاب آپشن بغیر کسی اگر مگر کے 9؍ مئی کے حملوں کی مذمت کرنا، حملہ آوروں سے دوری اختیار کرنا اور کارکنوں و سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے چلائی جانے والی فوج مخالف بیانیے کی سختی سے مخالفت کرنا تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے پی ٹی آئی کی الیکشن کی کامیابی کی صورت میں سیاسی عدم استحکام کے خدشات بڑھ جائیں گے۔