معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
آپ کون ہیں؟
چند روز پہلےایک زبردستی کا دوست میرے پاس آیا، باتوں باتوں میں کہنے لگا یار عطا میری یادداشت بہت کمزور ہوگئی ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے، بولا اکثر اپنے بچوں کے نام تک بھول جاتا ہوں، تاریخ کے نامور افراد کے نام ذہن سے نکل جاتے ہیں، یاد نہیں آتا میں ادھر کس کام سے آیا تھا۔ میں نے کہایہ معمولی باتیں ہیں تم کسی سے بھی بات کرو تو وہ بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کرے گا۔ اس نے کہا میرا کیس بہت زیادہ سیریس ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ بولا میں کئی دفعہ رات کو غلطی سے اپنے گھر کی بجائے اپنے ایک ہمسائے کے گھر میں گھس جاتا ہوں اور ہر دفعہ مجھ بے گناہ پر تشدد کیا جاتا ہے، میں نے وضاحت چاہی اور کہا ہر دفعہ ایک ہمسائے کے گھر میں داخل ہوتے ہو یا کبھی گھر بدلتے بھی ہو؟ بولا نہیں، ہر دفعہ اسی کے گھر میں داخل ہوتا ہوں، اس پر میں چونکا اور پوچھا ’’اسی‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کون ہے وہ؟ بولا یاد نہیں۔ تب مجھے تشویش ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ معاملہ سیریس ہے۔ چنانچہ میں نے مشورہ دیا کہ اپنے کمزور حافظے پر قابو پائو، اس کی طرف جانا چھوڑ دو، بولا میں نے کیا چھوڑنا ہے، اس کے گھر والے خود محلہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، میں نے پوچھا کس کے گھر والے؟ بولا یاد نہیں۔میرا یہ ’’دوست‘‘ کافی دیر تک میرے ساتھ بیٹھا اپنی کمزور یادداشت کا رونا روتا رہا۔ اس نے مجھے بتایا اور خود ہی میری گواہی بھی اس میں شامل کر دی کہ وہ بہت محب وطن ہے ، چنانچہ اس نے چودہ اگست کو یوم پاکستان کی خوشی میں چند دوستوں کو کچھ بتائے بغیر اپنے گھر کھانے پر بلایا اور اس سے پہلے میز پر ایک بڑا کیک رکھ دیا۔ دوستوں نے پوچھا یہ کیک کس خوشی میں کاٹناہے، جس پر اس نے بتایا آج چودہ اگست ہے، یوم آزادی کی خوشی میں، جس پر سخت بدمزگی پیدا ہوگئی، اسے بہت برا بھلا کہاگیا، اسے ’’ٹھاپیں‘‘ بھی لگائی گئیں، حالانکہ بقول اس کے یہ سب اس کی کمزور یادداشت کی وجہ سے ہوا، کیونکہ اس روز چودہ اگست نہیں سقوط ڈھاکہ کا دن سولہ دسمبر تھا۔ اس نے اپنی یادداشت کے حوالے سے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں، ان میں سے ایک بات کے حوالے سے وہ بہت پریشان تھا، اس نے بتایا کہ روزانہ اس کے گھر کے باہر کچھ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے ادھار لی ہوئی رقم واپس کرو، میں جب کہتا ہوں کہ مجھےبالکل یاد نہیں کہ تم سے کبھی کوئی رقم ادھار لی تھی، تو وہ گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں، کئی ایک اس کا گریبان پکڑ لیتے ہیں اس شور شرابے کے دوران اہل محلہ جمع ہو جاتے ہیں اور یوں روزانہ میری بے عزتی ہوتی ہے۔ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، میں نے کہا تم لوگوں سے ادھار لی ہوئی رقم واپس کیوں نہیں کرتے، وہ کہتا ہے کیسے واپس کروں، مجھے یاد ہی نہیں کہ میں نے کسی سے ادھار لیا تھا۔
اس نے مجھے ایک اور دردناک خبر بتائی کہ بینک والے اسے مکان کی قرقی کی دھمکی دے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تم نے مکان کی تعمیر کے لئے جو قرض لیا تھا اس کی قسطیں باقاعدگی سے ادا نہیں کیں، میں نے انہیں بتایا کہ میری یادداشت بہت کمزور ہے، مجھ سے بھول چوک ہو جاتی ہے، بھول چوک تو خدا بھی معاف کردیتا ہے، مگر ان لوگوں کے دلوں میں خوف خدا ہی نہیں ہے۔ ایک اور بات اس نے اپنی یادداشت کے حوالے سے بتائی کہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے، چنانچہ ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں اس کی بیوی شورشرابا کرنے لگتی ہے کہ مہینے کا خرچہ کیوں نہیں دیا، جس پر میں حیران ہو کر اس سے پوچھتا ہوں کہ تم کون ہو، میں تمہیں جانتا ہی نہیں، وہ کہتی ہے کہ میں نصیبوں جلی تمہاری بیوی ہوں اور تمہارے بچوں کی ماں ہوں، جس پر میں مزید حیران ہوتا ہوں کہ ہیں! میں بچوں کا باپ بھی ہوں۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ تمہیں اپنے بچوں کے نام یاد نہیں رہتے، جس کے جواب میں اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیا میں نے واقعی یہ کہا تھا؟۔ اس پر وہ اپنا ماتھا پیٹنے لگا۔
اب میرا بھی ماتھا پیٹنے کا وقت آگیا تھا کہ اس کی باتوں سے میرے سر میں درد ہونے لگاتھا، چنانچہ میں نے کروٹیں بدلنا شروع کیں تو بولا سر بور تو نہیں ہوگئے، میں نے کہا نہیں، مگر آپ کون ہیں؟جس پر وہ چیخ کر بولا تم مجھے نہیں جانتے، میں تمہارا دوست ہوں۔ میں نے کہا اچھا! بس میری یادداشت بھی بہت بری ہے۔ آپ کا نام کیا ہے؟۔